حقیقی دشمن…(4)

تقریباً تین دہائیوں پر مشتمل اپنی صحافتی زندگی کے دوران کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے بے شمار باتیں سنتا آ یا ہوں۔ عام مشاہدہ یہی ہے کہ جب بھی کوئی سیاسی جماعت اقتدار سے باہر یعنی اپوزیشن میں ہوتی ہے تو وہ عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے اور انہیں سبز باغ دکھانے کے لیے کالاباغ ڈیم سمیت ملکی ترقی کے حامل بڑے ترقیاتی منصوبوں کی حمایت میں بیانات دینا شروع کر دیتی ہے لیکن جب اسے اقتدار اور اختیار مل جاتا ہے تو پھر اپنے کسی مفاد یا شاید کالاباغ ڈیم کے مخالف چند مٹھی بھر اتحادیوں کو ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے ان اہم منصوبوں کو ''قومی اتفاقِ رائے‘‘ تک پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سندھ اور خیبر پختونخوا کے قوم پرست رہنما اس منصوبے کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ ان طبقات کا الزام ہے کہ اس ڈیم کے بننے سے سارا فائدہ پنجاب کو ہو گا جبکہ چھوٹے صوبوں کو اس سے نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ ان کی جانب سے یہ بھی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ڈیم کے بننے سے نوشہرہ سمیت کئی علاقے زیرِ آب آ جائیں گے جبکہ سندھ میں دریائے سندھ کا پانی کم ہو جائے گا۔ کیا کالا باغ ڈیم بننا چاہیے؟ کیا اس کے بننے سے ملک میں پانی کا مسئلہ حل ہو سکے گا یا اس سے صوبوں کے درمیان اختلافات میں اضافہ ہو گا؟ کالاباغ ڈیم کے بننے سے کس کو فائدہ پہنچے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہم اس کالم سیریز میں زیرِ بحث لائے ہیں۔
2004-05ء میں صدر پرویز مشرف کو اچانک یہ خیال ستانے لگا کہ اس ڈیم کو بننا چاہیے لیکن تمام تر اختیار اور طاقت رکھنے کے باوجود کچھ نادیدہ وجوہات کی بنا پر وہ اس منصوبے کا آغاز نہ کر سکے۔ دسمبر 2005ء میں اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں کالاباغ ڈیم تعمیر کر کے رہیں گے لیکن یہ منصوبہ شروع نہ ہو سکا۔ اسی طرح 26 مئی 2008ء کو پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما اور اس وقت کے وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی (موجودہ سپیکر قومی اسمبلی) راجہ پرویز اشرف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ کالاباغ ڈیم کبھی تعمیر نہیں کیا جائے گا‘ صوبہ خیبر پختونخوا، سندھ اور دوسرے متعلقہ فریقوں کی مخالفت کی وجہ سے یہ منصوبہ قابلِ عمل نہیں رہا۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ جو ماضی میں کالاباغ ڈیم کی سب سے بڑی حمایتی دکھائی دیتی تھی‘ وہ بھی اب اس عظیم منصوبے کی حمایت سے پیچھے ہٹتی جا رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اُس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ (موجودہ وزیراعظم پاکستان) شہباز شریف نے مئی 2018 ء میں صوبہ سندھ میں میرپور خاص کے علاقے سندھڑی میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جہاں صوبہ پنجاب کی طرف سے سندھ کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لیے جذبہ خیر سگالی کا اظہار کیا وہیں پر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر سندھ کے عوام نہیں چاہتے تو کالا باغ ڈیم تعمیر نہیں کیا جائے گا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے سندھ کی محبت میں 100 ڈیم قربان کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ اگر اے این پی کو دیکھا جائے تو اس کی مکمل سیاست ہی اس ڈیم کی مخالفت پر ٹکی ہوئی ہے۔ آج جبکہ پورے ملک میں کالاباغ کی تعمیر کے حوالے سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں تو مذکورہ تینوں سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور اے این پی حکمران اتحاد کا حصہ ہیں اور خدشہ ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف اور ان کی جماعت مسلم لیگ نواز‘ اپنی سیاست اور حکومت بچانے کے لیے اتحادیوں کی ناراضی مول نہیں لے گی اور ایک بار پھر یہ اہم قومی منصوبہ سیاست کی نذر ہو جائے گا۔
ماضی میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کرنے والے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے بھی اس معاملے پر اپنے دورِ حکومت میں کچھ نہیں کیا بلکہ خیبر پختونخوا میں اب پی ٹی آئی کی حکومت کو نو سال ہو چکے ہیں‘ اس کے باوجود وہ تاحال خاموش ہیں۔ کاش وہ ہی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا عَلم اٹھا کر میدان میں نکلیں۔ آج کل تو وہ ویسے بھی اپوزیشن میں ہیں اور کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرنے والی تمام جماعتوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ اس طرح یہ ان کے لیے اچھا موقع ہے کہ وہ سب سے پہلے خیبر پختونخوا میں کالاباغ ڈیم کے حق میں آواز اٹھائیں، ان کے اس اقدام سے کے پی میں عوام کی اکثریت اس اہم قومی منصوبے کی حمایت کرے گی، اس کے بعد اگر سندھ میں پیپلز پارٹی یاکوئی دوسری جماعت کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرے گی تو کپتان اسے بھی آڑے ہاتھوں لے سکتے ہیں اور یوں یہ منصوبہ قابلِ عمل بن سکتا ہے۔ کالا باغ ڈیم سمیت آبی ذخائر کی تعمیر ہی پاکستان کے ترقی کی شاہراہ پرگامزن ہونے کی ضمانت بن سکتی ہے اور اس کا سارا کریڈٹ عمران خان لے سکتے ہیں۔ وہ تو ویسے بھی ڈیموں اور آبی ذخائر کے بڑے حامی رہے ہیں اور ساٹھ کی دہائی کے بعد‘ اپنے دورِ حکومت میں وہ دس بڑے ڈیموں کی تعمیر شروع کرانے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ اگر وہ اس منصوبے کے حق میں رائے عامہ کو موڑنے میں کامیاب ہو جائیں تو نہ صرف یہ صورتحال پی ٹی آئی کی مخالف پارٹیوں کے لیے سیاسی موت کے مترادف ہو گی بلکہ عمران خان کی چھبیس سالہ سیاسی جدوجہد کی اصل کامیابی بھی سمجھی جائے گی کیونکہ اس سے وہ صحیح معنوں میں ملک میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ خان صاحب کو چاہئے کہ وہ قوم کو سمجھائیں کہ دنیا بھر میں بڑے ڈیم سیلاب کی تباہ کاریوں کے خلاف سب سے مؤثر ہتھیار گردانے جاتے ہیں۔ نہ صرف سیلابوں بلکہ یہ خشک سالی اور قحط کا بھی مقابلہ کرتے ہیں۔ 2010ء میں آنے والے سیلاب میں کُل ایک سو ملین ایکڑ فٹ پانی کا بہائو ریکارڈ کیا گیا تھا۔ یہ پانی نہ صرف بارہ بالکل خالی پڑے بڑے ڈیموں کو بھرنے کے لیے کافی تھا بلکہ ذخیرہ کر کے اس پانی کو زراعت میں استعمال کے قابل بھی بنایا جا سکتا تھا۔ اس وقت صورتِ حال 2010ء سے بھی زیادہ سنگین ہے اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے ہماری کمزور معیشت کو روند کر رکھ دیا ہے۔ ان حالات میں کالاباغ ڈیم کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے اور اب اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے یہ بہترین موقع ہے۔
کالاباغ ڈیم کے مجوزہ نقشے کا معائنہ کیا جائے تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ کالاباغ ڈیم کی سائٹ تین اطراف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے اور انہی پہاڑوں میں سے دریائے سندھ چشمہ بیراج کی طرف بڑھتا ہے۔ ایسی جگہ کسی بھی ڈیم کے لیے نہ صرف آئیڈیل ہوتی ہے بلکہ قدرت کا ایک تحفہ سمجھی جاتی ہے۔ اگر اس طرح کا ڈیم کسی میدانی علاقے میں بنایا جائے تو اس کی لاگت کئی گنا تک بڑھ جاتی ہے۔ ہمیں قدرت نے کالاباغ ڈیم کے حوالے سے آئیڈیل لوکیشن سے نواز رکھا ہے لہٰذا حقیقت پسندی یہی ہے کہ قدرت کی نعمتوں پر شکر بجا لاتے ہوئے اس ڈیم کی تعمیر کا آغاز کیا جائے۔ کالاباغ ڈیم میں زیادہ سے زیادہ پانی کا ذخیرہ آٹھ ملین ایکڑ فٹ تک ہو گا۔ یہ استعداد سیلاب کی تباہ کاریوں کو کم سے کم سطح تک محدود کرنے کے لیے بروئے کار لائی جائے گی جبکہ عام حالات میں اس ڈیم میں پانی کا ذخیرہ چھ ملین ایکڑ فٹ کے لگ بھگ ہو گا جس سے سالانہ نوے ملین ایکڑ فٹ پانی آبپاشی اور دیگر ضروریات کے لیے میسر آئے گا۔ کالاباغ ڈیم کے حوالے سے ایک تجویز یہ ہے کہ اس سے ''سیزنل کیری اوور ڈیم‘‘ کی طرح کام لیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی کا ذخیرہ صرف اس صورت میں کیا جائے جب دریا میں سیلابی صورتحال ہو جبکہ باقی ماندہ دنوں میں پانی کو ذخیرہ نہ کیا جائے اور دریا کی روانی پر اثر انداز ہوئے بغیر ڈیم سے فوائد حاصل کیے جائیں۔ نوشہرہ‘ جس کے ڈوبنے کا خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے‘ وہ کالاباغ ڈیم کی سائٹ سے ایک سو دس کلومیٹر دور اور ساٹھ فٹ اونچا ہے لہٰذا یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس ڈیم کے بننے سے نوشہرہ کو کوئی خطرہ لاحق ہو گا۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف اتحادی جماعتوں کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے راضی کریں اور اگر وہ ایسا نہیں کر پاتے یا حکومت بچانے کیلئے ایسا نہیں کرتے تو عمران خان کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ سیلابوں کی تباہ کاریوں سے بچائو اور پانی و بجلی کے بحرانوں سے نجات دلانے کیلئے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو اپنا مقصد بنائیں۔ یہ بیانیہ ان کی سیاست کو تقویت تو دے گا ہی ملک کو بھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرے گا۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں