آج کل حالات یہ ہو چکے ہیں کہ ٹی وی پر خبریں دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھاکہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم پُرسکون زندگی گزارنے کے لیے ٹیلی وژن نہیں دیکھتے‘ وہ ایک حد تک ٹھیک ہی کرتے ہیں کیونکہ ہماری قوم کے 'ٹھیکیدار‘ تو سیاست دان ہیں جو حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں‘ ہمیشہ اپنے مفاد ہی کی بات کرتے نظر آتے ہیں اور ان کے مفادات کا تحفظ سیاسی مخالفین کو کچلنے میں مضمر دکھائی دیتا ہے۔ انتخابی مہم کے علاوہ آپ کسی سیاست دان کے منہ سے علاقائی و قومی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کی بات کم ہی سنیں گے۔ جب بھی اور جہاں بھی ہمارے ''قومی رہنما‘‘ بات کریں گے‘ ان کی زبان سے صرف سیاسی مخالفین کی برائیاں ہی نکلیں گی۔ سوچ رہا تھا کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا سنسنی پھیلاتا ہے یا ہر وقت پریشان کن خبریں نشر و شائع کی جاتی ہیں‘ اگر وہ تھوڑا غور کریں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اس الزام میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ میڈیا کا کام تو صرف رپورٹنگ کرنا ہے۔ اس کے ذمہ دار تو ہمارے سیاست دان ہیں‘ جنہیں ہم ووٹ اس لیے دیتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ میں جا کر ہماری آواز بنیں، ہمارے مسائل اجاگر کرکے انہیں حل کرائیں، اپنے حلقے میں زیادہ سے زیادہ ترقیاتی کام کرائیں، ہمارے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کریں اور مؤثر قانون سازی کے ذریعے عوام کے لیے آسانیاں پیدا کریں لیکن حقیقت میں ہماری موجودہ سیاست عوامی امنگوں کے برعکس چل رہی ہے۔ بات تازہ خبروں سے شروع ہوئی تو ایک نظر آج کی خبروں پر ڈال لیں‘ ہماری مروجہ ملکی سیاست کا اصل روپ عیاں ہو جاتا ہے۔ اِس وقت قومی میڈیا پر جو سیاسی خبریں چل رہی ہیں‘ ان کی صرف سرخیاں ہی دیکھ لیں تو حکومت و اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کا اصل مدعا سامنے آ جاتا ہے:
کارکن نواز شریف کی واپسی کی بھرپور تیاری کریں: وزیردفاع خواجہ آصف
حکومت عمران خان کو نااہل کرنے کی سازش کر رہی ہے: فرخ حبیب
عمران خان اپنے دور میں شروع ہونے والا ایک منصوبہ نہیں دکھا سکتے: وزیراطلاعات مریم اورنگزیب
موجودہ حکمرانوں میں ملک چلانے کی اہلیت نہیں: فواد چودھری
پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں اسی ماہ تحلیل کر دوں گا: سابق وزیراعظم عمران خان
جب تک تسلی نہیں ہو گی، استعفیٰ قبول نہیں کروں گا: سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف
پرویز الٰہی نے اسمبلی تحلیل نہ کی تو ہم استعفیٰ دے دیں گے: وزیر آبپاشی پنجاب ہاشم ڈوگر
4 سال کی معاشی تباہی 6 ماہ میں ختم نہیں ہو سکتی: مسلم لیگ (ن)
عمران خان پارلیمانی سسٹم ختم کر کے صدارتی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں: پیپلز پارٹی رہنما حسن مرتضیٰ
حسن مرتضیٰ کے منہ سے کرپشن پر بھاشن عجیب لگتا ہے: ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب فیاض الحسن چوہان
عمران خان نے ہیلی کاپٹر کو سائیکل بنا دیا تھا: مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی
مذکورہ بالا شہ سرخیاں اس وقت قومی میڈیا پر چلنے والی سیاسی خبریں ہیں‘ جن کے شیئر کرنے کا مقصد عوام کوحقائق سے آگاہ کرنا ہے کہ سنسنی ذرائع ابلاغ نہیں پھیلاتے بلکہ ہمارے چینلز تو زیادہ تر مثبت خبروں کواہمیت اور زیادہ شیئر کرتے ہیں لیکن اگر ہمارے سیاسی رہنما ہی اپنی گفتگو میں سیاسی مخالفین کو رگڑا دیں گے‘ ان پر تنقید ہی کریں گے تو ایسی خبروں کو کیسے تبدیل کرکے مثبت انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے؟ میڈیا تو ایک آئینہ ہے‘ ملک میں جو سیاست چل رہی ہو گی‘ اس پر تو وہی دکھائی دے گی۔ مذکورہ بالا خبروں کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ ملک و قوم کی بات کوئی نہیں کر رہا‘ ہرکوئی اپنے سیاسی مخالفین ہی کے درپے ہے۔
ملک کا عام آدمی یہ سمجھتاہے کہ جو بھی پارٹی اپوزیشن میں ہوتی ہے‘ کم ازکم وہ اپنی سیاست چمکانے اور عوام کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے مہنگائی سمیت عوامی مسائل کی بات ضرور کرتی ہے اور اس طرح جب تسلسل سے عوامی مسائل اجاگر ہوتے رہتے ہیں تو حکومت انہیں حل کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے لیکن جو جماعت اقتدار میں آ جاتی ہے‘ اسے عوام کا دکھ درد بھول جاتا ہے، وہ اپنا اقتدار انجوائے کرتی ہے اور مخالفین سے سیاسی بدلہ لینے پر تُل جاتی ہے۔ آج سے تقریباً ایک سال قبل حالات یہ تھے کہ مہنگائی منہ زور ہو چکی تھی، لوگ معاشی طور پر سخت پریشان تھے اور پی ٹی آئی حکومت سے عاجز آ چکے تھے لیکن اُس وقت بھی متحدہ اپوزیشن مہنگائی، بیروزگاری اور توانائی بحران پر آواز اٹھانے کے بجائے صرف عمران خان حکومت کا تختہ الٹنے پر لگی ہوئی تھی۔ پھر سابق وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو عوام اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ اب حکومت تبدیل ہو گی تو امریکی ڈالر کی پرواز تھم جائے گی، پٹرول شاید دوبارہ ستر روپے فی لٹر کی قیمت پر آ جائے گا، گیس تو کیا‘ بجلی کی بھی لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی، ہسپتالوں میں علاج معالجے کی بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں گی اور راوی ہر طرف چین ہی چین لکھے گا۔ اسی طرح پاکستان کے سادہ لوح عوام یہ بھی سمجھتے تھے کہ اگر عمران خان کو حکومت سے نکالا گیا تو وہ اپوزیشن میں آکر عوامی مسائل کو نہایت مؤثر انداز میں اجاگر کریں گے لیکن یہ ساری باتیں محض لوگوں کی خوش گمانی ہی رہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد عمران خان سابق وزیراعظم بن گئے اور اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہو گئے لیکن آج تک عام آدمی کا نہ توکوئی ایک مسئلہ حل ہوا ہے اور نہ ہی کسی بحران میں کمی آئی ہے بلکہ ہر بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور اب تو ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جانے لگی ہیں۔ سابق حکومت کے وزرائے خزانہ پر تنقید کرنے والے موجودہ حکمران پہلے اسحاق ڈار کی وطن واپسی کی تاریخیں دے کر طفل تسلیاں دیتے رہے اور جب ڈارصاحب وطن واپس آ گئے لیکن پھر بھی نہ تو ڈالر نیچے آیا اور نہ ہی پٹرول سستا ہوا تو توپوں کا رخ مفتاح اسماعیل کی جانب کر دیا گیا۔ ادھر مفتاح اسماعیل مسلسل اپنی ہی جماعت کے وزیر خزانہ کی معاشی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
پی ٹی آئی جب حکومت سے بے دخل کی گئی تو اس کے پاس بہترین آپشن یہ تھا کہ یہ اپنے دور میں ہونے والی مہنگائی و بیروزگاری کا موجودہ دور سے موازنہ کر کے حکومت پر پریشر بڑھاتی اور اگلے انتخابات کی تیاری کرتی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ عمران خان اور ان کی جماعت عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کے بجائے ابھی تک اپنے اقتدار کے جانے کا غم منا رہے ہیں۔ گزشتہ سات‘ آٹھ ماہ سے کسی بھی طرح موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کی تدبیریں ہو رہی ہیں۔ اپوزیشن کی نظر میں ملک کو بچانے کے لیے موجودہ حکومت کا خاتمہ اور اس کا اقتدار میں آنا ضروری ہے۔ ادھر حکمران اتحاد توشہ خانہ کے تحائف کی فروخت کا ڈھول پیٹ پیٹ کر سابق وزیراعظم کو ہدفِ تنقید بنا رہا ہے اور عملی طور پر عوامی مسائل حل کرنے پر اس کی توجہ کم ہی نظر آتی ہے۔
2022ء کا آخری مہینہ تیزی سے گزر رہا ہے۔ 2023ء عام انتخابات کا سال ہے، الیکشن اپریل میں ہوں یا اکتوبر میں‘ اگلے سال ہی ہونا ہیں۔ حزبِ اقتدار و حزبِ اختلاف‘ دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود کی بات کریں اور مسائل و بحرانوں کو حل کرنے پر توجہ دیں، کیونکہ جو مہنگائی، بیروزگاری اور توانائی بحران کے خاتمے کی بات کرے گا‘ وہی عوام میں حمایت حاصل کرے گا اور اسے ہی لوگ آئندہ عام انتخابات میں ووٹ دیں گے۔ جو سیاسی جماعتیں محض دوسروں پر تنقید کرتی رہیں گی‘ عوام انہیں الیکشن میں مسترد کر دیں گے لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں اور تنقید برائے تنقید کے بجائے عوامی مسائل کے حل پر توجہ دیں۔