اٹھارہویں آئینی ترمیم کو ساڑھے بارہ برس ہو چلے ہیں لیکن آئے روز اس کے مضمرات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبائی خودمختاری کے نام پر وفاق کو کمزور کیا گیا تو بے جا نہ ہو گا۔ صوبائی خود مختاری کے نام پر وفاقِ پاکستان کی بنیادوں پر وار کیا گیا اور کئی ایسے محکمے بھی صوبوں کو دے دیے گئے جن کو سنبھالنے کی اہلیت ان میں نہیں تھی۔ اگر سیاسی جماعتیں صوبائی خود مختاری میں اتنی ہی سنجیدہ ہوتیں تو انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بنائے جاتے اور مقامی حکومتوں کا نظام مؤثر طور پر رائج کرکے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جاتے۔ اس کے برعکس اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کی مالیاتی اجارہ داری قائم کی گئی جس سے وفاق کی سالمیت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ گو کہ 8 اپریل 2010ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی سے منظور ہونے والی 18ویں ترمیم میں پارلیمنٹ کو یک طرفہ طور پر تحلیل کرنے کے صدر کے اختیار کو ختم کر کے پاکستان کو نیم صدارتی سے پارلیمانی جمہوریہ بنایا گیا اور صوبہ سرحد (شمال مغربی سرحدی صوبے) کا نام خیبر پختونخوا رکھا گیا‘ اسی ترمیم کے ذریعے صوبائی حکومتوں کو تحفظ فراہم کیا گیا اور صوبوں میں ایمرجنسی نافذ کرنے یا گورنر راج لگانے جیسے وفاقی اقدامات کی حوصلہ شکنی کی گئی مگر اس ترمیم کے بہت سے مضمرات وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آئے۔ اس ترمیم کا ایک نقصان تو یہ ہوا کہ ٹیکسیشن کے معاملات میں مرکز کے اختیارات محدود ہو گئے اور وفاق کا بیرونی قرضوں پر انحصار بڑھ گیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ انکم ٹیکس اور زرعی ٹیکس اکٹھا کرنے اور خرچ کرنے کا اختیار مرکز کے پاس ہی ہونا چاہیے تاکہ ملک مالی طور پر کمزور نہ ہو۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ اٹھارہویں ترمیم سے صوبوں کو جو بے تحاشا مالی وسائل منتقل ہوئے‘ وہ مبینہ طور پر سیاسی اشرافیہ کی جیبوں میں گئے اور نتیجتاً کرپشن بڑھی۔ اس ترمیم کا تیسرا نقصان یہ ہوا کہ اس ترمیم کے نتیجے میں انتظامی عدم توازن پیدا ہوا۔ صحت اور تعلیم کے شعبے صوبوں کو منتقل ہونے سے بدانتظامی میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ اس ترمیم کے تحت صوبوں نے اختیارات اور وسائل تو مرکز سے حاصل کر لیے مگر اپنے اختیارات اور وسائل اضلاع، تحصیلوں اور یونین کونسلوں کو نہیں دیے۔ اٹھارہویں ترمیم سے عملاً مالیاتی امور میں صوبائی اجارہ داری قائم ہو گئی مگر اس کے باوجود صوبوں نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ این ایف سی ایوارڈ کی طرح پی ایف سی کا اجرا نہ ہو پانا بھی باعثِ تشویش ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مالیاتی امور میں صوبائی اجارہ داری سے عام آدمی کو کیا ملا؟ اس ترمیم میں پانچ سے سولہ سال تک کے ہر بچے کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا‘ کیا حکومتوں نے یہ ذمہ داری پوری کی؟
بلاشبہ قانون سازی یا آئین میں ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے لیکن اس بات کاخیال رکھنا بھی پارلیمنٹیرینز کی ذمہ داری ہے کہ کسی ترمیم کے قومی سطح پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور اس سے عام شہریوں کو کتنا فائدہ اورکتنا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ترمیم نے صوبائی تعاون میں بھی مشکلات پیدا کی ہیں جبکہ اس کے بعد سے مرکز کے پاس محض ہدایات جاری کرنے کا اختیار رہ گیا ہے جس پر عمل درآمد کرانا اکثر اس لیے ممکن نہیں ہو پاتا کہ مرکز کی ہدایات پر عمل کرنا صوبوں کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے۔ کووِڈ 19 کے دوران اس کا مظاہرہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ وفاق میں برسرِ اقتدار پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے جب بھی لاک ڈائون لگانے یا اس میں نرمی کرنے کے احکامات جاری کیے تو سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے نہ صرف انہیں ہوا میں اڑا دیا بلکہ ان کے برعکس ہدایات جاری کر دیں۔ حکومت تبدیل ہوئی، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے میاں شہباز شریف وزیراعظم پاکستان بن گئے تو خیبر پختونخوا میں قائم پی ٹی آئی حکومت نے وفاقی احکامات کی راہ میں روڑے اٹکانا شروع کر دیے۔ پھر جب پنجاب میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ چودھری پرویزالٰہی وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے تو ملک کے سب سے بڑے صوبے اور وفاق میں بھی ٹکرائو کی سی صورتحال پیدا ہو گئی۔ گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے توانائی بحران سے نمٹنے اور معاشی کفایت شعاری کیلئے ملک بھر میں دکانیں رات آٹھ بجے بند کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اس فیصلے پر عمل درآمد ہوتا اس لیے دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاق کے پاس اس حکم نامے پر عمل درآمد کے اختیارات نہیں رہے۔ اب وفاقی حکومت محض ہدایات ہی جاری کر سکتی ہے۔ یہ صوبائی حکومتوں کی مرضی ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں دکانیں بند کرائیں یا نہ کرائیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے بجلی بچت اور معاشی کفایت شعاری کا پلان صوبائی حکومتوں کے تعاون کے بغیر ایک خواب ہی بن کر رہ جائے گا۔
اٹھارہویں ترمیم میں وفاقی وزارتِ کھیل بھی ختم کر دی گئی اور صوبائی سپورٹس بورڈز کو خودمختاری دے دی گئی جس کے بعد وہ پاکستان سپورٹس بورڈ کے آئین پر عمل درآمد کے پابند نہیں رہے۔ ملک میں صرف کرکٹ کے کھیل کا انتظام پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس ہے جبکہ دیگر اولمپکس کھیلوں کا نظام چلانے والے سب سے بڑے ادارے‘ پاکستان سپورٹس بورڈ (پی ایس بی) کے اختیارات بھی انتہائی محدود کر دیے گئے ہیں اور سپورٹس کا شعبہ وفاقی وزارت بین الصوبائی رابطہ کے ماتحت چلا گیا ہے جس کا کردار قومی سطح پر محض ایک رابطہ کمیٹی جیسا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد پاکستان میں کھیلوں کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس ترمیم کے بعد کھیلوں کے بجٹ میں مبینہ خورد برد کی شکایات 90 فیصد تک بڑھ گئیں جبکہ عالمی سطح پر ہمارے کھلاڑیوں اور قومی ٹیموں کی کارکردگی میں بھی تقریباً اسی تناسب سے تنزلی واقع ہوئی۔ اس ترمیم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اس کے بعد سے آج تک پاکستان نے کھیل کے عالمی میدانوں میں محض چند انفرادی تمغے جیتے۔ وہ ملک‘ جو بیک وقت ہاکی، کرکٹ، سکواش اور سنوکر کا ورلڈ چیمپئن تھا، اس ترمیم کے بعد کھیلوں کے شعبے میں شدید تنزلی سے دوچار ہوا۔ نہ صرف ہمارا قومی کھیل ہاکی شدید زوال کا شکار ہوا بلکہ سکواش پر ہماری چالیس سالہ حکمرانی کا دور بھی ختم ہو گیا۔
پاکستان سپورٹس بورڈ کے آئین کے مطابق سپورٹس بورڈ کا کام سہولتیں فراہم کرنا ہے اور کھیلوں کی ٹیمیں تیارکرنا اور مقابلے منعقد کرانا فیڈریشنوں اور ایسوسی ایشنوں کا کام ہے۔ صوبائی سپورٹس بورڈز‘ جو پی ایس بی کے ذیلی ادارے تھے‘ نے اٹھارہویں ترمیم کے بعد پی ایس بی کے آئین پر عمل درآمد روک دیا اور اپنی مرضی کے قوانین بنا لیے جس کے بعد اب صوبائی سطح پر کھیلوں کے ایونٹس میں ایسوسی ایشنوں کی شمولیت محض خانہ پُری کی تک رہ گئی ہے جبکہ کھیلوں کے 90 فیصد پروگرام اب صوبائی سپورٹس بورڈز کے افسران خود منعقد کرانے لگے ہیں اور بیشتر ایونٹس میں ایسوسی ایشنوں کو اطلاع تک نہیں دی جاتی۔ بعض سینئر افسران نے مبینہ طور پر اپنی متوازی ایسوسی ایشنیں بھی بنا رکھی ہیں جبکہ بعض افسران تو اولمپکس ایسوسی ایشنوں کے عہدوں پر بھی براجمان ہیں اور یہ سارا کھیل اٹھارہویں ترمیم کے بعد شروع ہوا۔ پنجاب سپورٹس بورڈ کے ایک سنیئر افسر نے اس حوالے سے بتایاکہ مذکورہ ترمیم کے بعد صوبے پی ایس بی کے آئین کو نہیں مانتے، پہلے اگر سپورٹس بورڈ کسی ایونٹ میں شرکت کیلئے کہتا تھا تو صوبے پابند ہوتے تھے لیکن اب وہ اپنی مرضی کرتے ہیں کیونکہ صوبائی سپورٹس بورڈز نے اپنے اپنے آئین بنا لیے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ اٹھارہویں ترمیم کا نیک نیتی سے دوبارہ جائزہ لیا جائے، صوبائی خودمختاری کو ضرور قائم رکھیں لیکن ایسے سقم دور کرنا ضروری ہے جن سے قومی معاملات میں یکجہتی اور وفاق کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ صوبائی حکومتوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ صوبے کے عوام کی بہتری کیلئے اقدامات پر وفاق کے احکامات کو نظر انداز نہ کر سکیں۔ خصوصاً وفاقی وزارتِ کھیل کو مکمل اختیارات کے ساتھ بحال کیا جائے ورنہ کھیلوں کے نام پر سارا بجٹ یونہی ہڑپ ہوتا رہے گا اور ملک کا کھیلوں میں کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔