پاکستانی سیاست کا ایک اہم نام شیخ رشید احمد اور لال حویلی صرف راولپنڈی ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایک دوسرے سے منسوب ہیں۔ شیخ رشید کا جب بھی ذکر آئے تو زبان پر بے اختیار لال حویلی کا نام آ جاتا ہے اور اگر کہیں لال حویلی کی بات ہو رہی ہو تو سننے والا سمجھ جاتا ہے کہ ذکر شیخ صاحب کا ہو رہا ہے۔ آج کل لال حویلی اور اس کا مکین‘ دونوں ہی انتقامی سیاست کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ہر کوئی اس حوالے سے اپنا اپنا موقف بیان کر رہا ہے‘ لہٰذا سوچا کہ قارئین کو ان دونوں کے بارے میں کچھ تاریخی و ذاتی معلومات بھی فراہم کی جائیں۔ یہ قیامِ پاکستان سے پہلے کی بات ہے کہ جہلم کی ایک متمول ہندو فیملی کے سربراہ رائے صاحب کرپا رام کے بیٹے دھن راج سہگل مسلمان لڑکی ''بدھاں بائی‘‘ کے عشق میں مبتلا ہو گئے ۔ دھن راج سہگل لنکن انز (لندن) سے بیرسٹری کا امتحان پاس کر کے آئے تھے اور راولپنڈی میں مقیم تھے۔ کہتے ہیں کہ وہ سیالکوٹ میں ایک شادی میں شرکت کیلئے گئے اور یہیں انہوں نے نوجوان بدھاں کو رقص کرتے ہوئے دیکھا۔ دھن راج اسے دیکھتے ہی دل دے بیٹھے۔ دھن راج سہگل اس وقت نہ صرف خود شادی شدہ تھے بلکہ تین بچوں کے باپ تھے۔ پھر معلوم نہیں انہوں نے کیا تدبیر کی کہ وہ بدھاں بائی کو سیالکوٹ سے راولپنڈی لانے میں کامیاب ہو گئے۔ جس طرح شاہ جہاں نے ممتاز کے لیے تاج محل بنوایا تھا‘ اس طرح دھن راج نے بدھاں بائی کیلئے لال حویلی تعمیر کرائی‘ جو اُس وقت سہگل حویلی کے نام سے مشہور ہوئی۔ بدھاں نے سہگل حویلی میں شفٹ ہونے کے بعد ایک گھریلو عورت کی زندگی گزارنا شروع کر دی اور کثرت سے مذہبی محافل منعقد کراتی جس پر دھن راج بے دریغ دولت خرچ کرتا تھا۔ حویلی کے ساتھ دھن راج نے اپنے لیے ایک مندر اور بدھاں کیلئے ایک مسجد بھی بنوائی جس کا ایک راستہ صرافہ بازار سے تھا۔ شیخ رشید احمد جب پہلی بار رکنِ قومی اسمبلی بنے تو ان کے آبائی گھر بھابڑا بازار میں ہر وقت لوگوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ گھر کی بیٹھک چھوٹی ہونے کی وجہ سے ان کے اہلِ خانہ بھی تنگ پڑنے لگتے تھے۔ شیخ صاحب اس وقت خود بھی اپنا ایک پبلک سیکرٹریٹ بنانا چاہتے تھے۔ الیکشن میں انہوں نے ممتاز کالج کو اپنا دفتر بنایا تھا، جس کے بعد نئی جگہ پر بڑا دفتر بنانا بڑا ضروری تھا۔ ادھر سہگل حویلی کے کئی بار سودے طے ہوئے اور کئی دفعہ یہ فروخت ہوئی۔ کئی سالوں تک یہ ویران بھی پڑی رہی۔ مقامی لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ایک منحوس بلڈنگ ہے اور اس پر جنات کا سایہ ہے، سالوں ویران رہنے کے بعد ایک کشمیری خاندان نے اسے سہگل فیملی سے خریدا اور بعد ازاں غالباً اسی خاندان نے یہ حویلی شیخ رشید کو فروخت کی۔ جب شیخ رشید احمد نے اس حویلی کو خریدا تو یہ ملکی سیاست کا ایک اہم مرکز بن گئی۔
اب اگر اس حویلی کے مکین کی بات کی جائے تو شیخ صاحب کو پاکستانی سیاست کا ایک منفرد کردار اور اپنی مثال آپ سمجھا جاتا ہے۔ لال مفلر اور ہاتھوں میں ہمیشہ سگار رکھنے والے شیخ رشید احمد ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے لیکن جہدِ مسلسل سے وہ مقام پایا جو دنیا میں بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ زمانہ طالب علمی ہی سے انہوں نے اپنے اندر کے سیاست دان کو بھرپور انداز سے متعارف کرایا۔ شیخ رشید موجودہ قومی سیاست کا واحد کردار ہیں جو پہلے ایوب خان کے خلاف نعرہ زن رہا، مسلسل سیاسی جدوجہد جاری رکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف محاذ کھولا، جنرل ضیاء الحق کے دور میں اپنی اہمیت منوائی۔ محمد خان جونیجو، میاں محمد نواز شریف اور پرویز مشرف (مرحوم) کے دور میں بھی چھائے رہے۔ عمران خان کی کابینہ میں بھی اہم ترین عہدے پر فائز رہے اور پھر کپتان سے وفاداری نبھاتے ہوئے آج کل مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ شیخ صاحب کی سیاست کا مرکز آج بھی راولپنڈی کی وہی لال حویلی ہے۔ حالات کیسے بھی آئے‘ انہوں نے اپنا علاقہ، اپنے ووٹر اور طور طریقے نہیں بدلے۔ 1985ء سے اب تک وہ راولپنڈی کے اسی حلقے سے انتخابی میدان میں اترے۔ اب تک انہوں نے کامیابی کا تسلسل برقرار رکھا ہے اور آئندہ بھی وہ قومی اسمبلی میں راولپنڈی شہر کی نمائندگی کرنے کیلئے تیار ہیں۔ شیخ صاحب کے جوشِ خطابت نے انہیں مقبول عوامی لیڈر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ آغا شورش کاشمیری ان کے سرپرست تھے، چودھری ظہور الٰہی شہید ان پر فدا اور مجید نظامی ان کے قدر دان تھے۔ وہ جلسوں کی رونق اور پروگراموں کی ریٹنگ بڑھانے کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں۔
شیخ رشید کی کامیاب سیاست کا فارمولہ نمبر ون سے دوستی اور نمبر ون سے ہی دشمنی ہے۔ جوشِ خطابت انہیں ہر دور میں منفرد تو رکھتا ہے لیکن یہ سیاسی مخالفین سے برداشت نہیں ہوتا۔ جب وہ مسلم لیگ میں میاں نواز شریف کے ساتھ تھے تو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت ان کے تند و تیز بیانات کو برداشت نہیں کر پاتی تھی اور پی پی پی دور میں ان پر کلاشنکوف کیس بنا کر سزا بھی دلوائی گئی تھی۔ شیخ صاحب نے اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ جیل میں گزارا ہے، وہ متعدد دفعہ جیل میں گئے۔ جیل میں ہی انہوں نے اپنی پہلی کتاب لکھی، پھر جب وہ باعزت بری ہوئے تو میاں نواز شریف نے ہی انہیں ''فرزندِ پاکستان‘‘ کا خطاب دیا۔ پرویز مشرف دور میں وہ نواز شریف کے ملک سے باہر جانے پر مسلم لیگ (ق) کاحصہ بن گئے اور بعد ازاں عوامی مسلم لیگ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنا لی۔ 2018ء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد کیا لیکن الیکشن 'قلم اور دوات‘ کے نشان پر ہی لڑا اور کامیاب ہوئے۔ شیخ صاحب اطلاعات، ریلوے اور داخلہ سمیت 16 وفاقی وزارتوں کے قلمدان سنبھال چکے ہیں جو بذاتِ خود ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک منفرد ریکارڈ ہے۔ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ اگر وہ چاہتے تو تحریک عدم اعتماد میں ہوا کا رُخ بدلتا ہوا دیکھ کر سیاسی وفاداری تبدیل کر سکتے تھے‘ جس طرح عمران خان کے بعض دیگر اتحادیوں نے کیا اور اگر وہ ایسا کر لیتے تو شاید سترہویں بار بھی وزارت کا جھنڈا ان کی گاڑی پر لہرا رہا ہوتا لیکن انہوں نے مشکل وقت میں کپتان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا جس کے باعث آج کل وہ خود اور ان کی لال حویلی سیاسی انتقام کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ واضح رہے گزشتہ دنوں لال حویلی کے کچھ یونٹس کو سربمہر کیا گیا اور رات گئے اس کے مکین کو گرفتار کر لیا گیا۔16 وفاقی وزارتوں کا قلمدان تھامنے کے باوجود شیخ رشید کے دامن پر مالی بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مختلف حکومتوں نے ان کے خلاف جب بھی کوئی کارروائی کی تو ان کا قصور ہمیشہ ان کا جوشِ خطابت اور سیاسی مخالفین پر کڑی تنقید ہی رہا۔
قیام پاکستان سے آج تک‘ ملک کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہر دور میں سیاسی مخالفین ایک دوسرے پر الزام تراشیاں اور تنقید کرتے آئے ہیں لیکن اسے محض سیاسی مخالفت تک ہی رکھا گیا ہے۔ نوے کی دہائی میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کیں، سیاسی مقدمات بنائے گئے، سابق صدر آصف علی زرداری اور شیخ رشید احمد اس انتقام کا سب سے بڑا نشانہ بنے۔ میثاقِ جمہوریت کے بعد ملک میں کسی حد تک سیاسی استحکام آ گیا لیکن پھر پی ٹی آئی کے دور میں مختلف کرپشن کیسز پر سیاستدانوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی، کئی سیاسی مخالفین پر مقدمات بنا کر انہیں جیلوں میں ڈالا گیا۔ سیانے کہتے ہیں کہ اتنا کرو‘ جتنا کل برداشت کر سکو۔ یہی مکافاتِ عمل ہے جس کا نشانہ آج کل خود خان صاحب اور ان کے سیاسی دوست بن رہے ہیں۔ شیخ رشید احمد کے خلاف حالیہ مقدمات اور ان کی گرفتاری بھی اس سے باہر نہیں۔ گزشتہ روز جس طرح 72 سالہ شیخ رشید کو ہتھکڑیاں لگا کر دھکے دیے گئے‘ وہ مناظر ہر طرح سے افسوسناک تھے۔ اب شیخ صاحب کے کئی مخالفین بھی اس انتقامی سیاست کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور ان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ میثاق جمہوریت کی بنیاد رکھنے والے‘ موجودہ حکمرانوں کو سوچنا چاہئے کہ انہوں نے سدا اقتدار میں نہیں رہنا۔ اگر سیاسی انتقام کے بجائے مثبت روایات کو پروان نہ چڑھایا گیا تو مستقبل میں وہ خود بھی اس نفرت انگیز منفی سیاست کا نشانہ بن سکتے ہیں۔