ایک وقت تھاکہ جسٹس خواجہ شریف اور جسٹس سردار اسلم جیسے جج صاحبان کی عدالت میں آمد پر لوگ اپنی گھڑیوں کا وقت ٹھیک کیا کرتے تھے۔ وہ عدالت کے مقررہ وقت سے کبھی ایک منٹ بھی تاخیر کا شکار نہ ہوتے تھے۔ جب وہ کسی فریق کو طلب کرتے تو وہ بھی مقررہ وقت سے ہمیشہ آدھا گھنٹہ پہلے ہی پہنچ جایا کرتا تھا کیونکہ فریقین جانتے تھے کہ اگر خدا نخواستہ کسی بھی وجہ سے ایک منٹ بھی دیر سے پہنچے تو ندامت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور جرمانہ و سزا کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان اپنے وقار کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ عدلیہ خود کو آئین، قانون اور اصولوں کی پابندی سے باہر نہیں نکلنے دیتی تھی‘ لہٰذا سامنے پیش ہونے والے فریقین بھی عدالتی آداب کا حد درجہ لحاظ کرتے تھے۔ کمرۂ عدالت میں کسی کو اونچی آواز میں بات کرنے اور اجازت کے بغیر بولنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ کسی مقدمے میں ایک سے دوسری بار التوا مانگنے سے پہلے وکلا حضرات ہزار بار سوچتے تھے تا کہ شرمندہ نہ ہونا پڑ جائے۔
مجھے دو دہائیوں قبل جب نیوز ڈیسک سے رپورٹنگ کے شعبے میں آنے کا موقع ملا تو سب سے پہلے عدالتِ عُلیہ کی اسائنمنٹ ملی۔ کورٹ رپورٹنگ کاپہلا سبق یہ دیا گیا کہ جب بھی آپ نے عدالت کے احاطے میں پہنچنا ہے تو فوراً اپنا موبائل فون خاموش (سائلنٹ) کر دینا ہے تاکہ عدالت میں کسی مقدمے کی سماعت کے دوران موبائل فون کی گھنٹی سے عدالتی ماحول خراب اور عدلیہ کا وقار مجروح نہ ہو۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اگر کبھی غلطی سے کسی وکیل یا سائل کے موبائل فون کی گھنٹی بج جاتی تو عدالت وہ فون ضبط کرنے کا حکم دیتی اور پھر یہ احکامات صادر کیے جاتے کہ جرمانے کے طور پر فلاں خیراتی ادارے میں اتنا چندہ جمع کرا کر اس کی رسید لائیں اور اپنا موبائل فون واپس لے جائیں۔ دوسری بات یہ سمجھائی گئی کہ جب بھی عدالت میں داخل ہونا ہے تو سب سے پہلے تعظیم بجا لانی ہے اور جب کمرۂ عدالت سے باہر نکلنا ہے تو الٹے قدموں کا استعمال کرنا ہے تاکہ معزز عدالت (جج صاحبان) کی جانب پشت نہ ہو۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وکلا، سائلین، اعلیٰ افسران، سرکاری اہلکار، صحافی اور قانون دانوں کے معاونین‘ سبھی کمرۂ عدالت سے نکلتے وقت الٹے قدموں ہی کا استعمال کرتے تھے اور پھر دروازے سے نکلتے وقت دوبارہ تعظیم بجا لاتے اور کورٹ سے باہر نکل کر ہی سیدھا چلنا شروع کرتے تھے۔
تیسرا سبق یہ دیا گیا کہ کوشش ہمیشہ یہی کرنی ہے کہ کیس کی خبر اُن وکیل صاحب سے لینی ہے جن کے حق میں فیصلہ ہوا ہو، کیونکہ بعض اوقات مقدمہ ہارنے والا وکیل خبر اپنے مقصد یا مطلب کے مطابق بنانے کے لیے فیصلے کی تشریح اپنی مرضی سے کر دیتا ہے جو بعد ازاں کسی نوٹس کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔ یہ بات بھی سمجھائی گئی کہ خبر میں صرف کیس جیتنے والی کونسل کا نام دینا ہے، مقدمہ ہارنے والی پارٹی کے وکیل کا نام کبھی شائع نہیں کرنا۔ عدلیہ کے بعد وکلا کا احترام اور وقار بھی کورٹ رپورٹنگ میں ضروری ہوتا ہے۔ پانچویں بات یہ تھی کہ اگر کسی خبر کی تصدیق یا تصحیح عدالتی عملے سے کرنا مقصود ہوتو عدالت کے برخاست ہونے تک انتظار کرنا چاہئے اور جب جناب جسٹس صاحب عدالت سے اٹھ کر اپنے چیمبر میں چلے جائیں تو اس کے بعد ہی کورٹ افسران سے کیس کی فائل لے کر یا تفصیلات پوچھ کر اپنے نکات مکمل کرنے ہیں۔
عدالتی خبر بناتے وقت‘ خصوصاً اعلیٰ عدلیہ کی رپورٹنگ میں بہت سی باتوں کا خیال رکھنا از حد ضروری تھا ، سب سے ضروری امر یہ تھا کہ خبر کے آغاز میں عدالت عُلیہ یا عدالتِ عظمیٰ کے جج صاحبان کے نام کے ساتھ ''معزز جج جناب جسٹس‘‘ یا ''جج مسٹر جسٹس‘‘ کے الفاظ لکھنا ضروری ہے اور اگر کسی خبر میں معزز جج صاحب کے نام کے ساتھ مذکورہ الفاظ نہ لکھے جاتے تو اگلی صبح پیشی، سرزنش، جرمانہ یا سزا بھی بھگتنا پڑ سکتی ہے۔ خبر میں عدالتی ریمارکس میں الفاظ من وعن وہی لکھنا پڑتے جو جج صاحبان نے ادا کیے ہوتے، ایک لفظ کا بھی ہیر پھیر نہ ہوتا۔ کورٹ رپورٹنگ میں صحافتی آداب کا بڑا خیال رکھنا پڑتا تھا۔ لیکن اب یہ سب کچھ ماضی کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ اب اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ ہائیکورٹس یا سپریم کورٹ میں کیسز کی سماعت سے متعلق خبر بناتے وقت متعلقہ آداب ملحوظِ خاطر نہیں رکھے جاتے اور کسی اہم ترین کیس کی رپورٹنگ بھی ایک عام واقعے کی طرح کی جاتی ہے‘ جو یقینا اچھی روایت نہیں ہے۔
ایک بار لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج جناب جسٹس مزمل چودھری کی عدالت سے طلبی کی اطلاع ملی تو راقم الحروف کے پسینے چھوٹ گئے۔ پہلے ہائیکورٹ بار کے ایک سینئر عہدیدار کو ساتھ لیا اور پھر آیت الکرسی پڑھتا ہوا مذکورہ عدالت پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر علم ہوا کہ جج صاحب نے اپنے چیمبر میں طلب کیا ہے۔ ڈرتے ڈرتے کمرے میں داخل ہوا تو جج صاحب نے بڑے احترام سے استقبال کیا۔ عزت سے بیٹھنے کوکہا اور پہلے پانی اور پھر چائے اور کیک پیش کیا۔ میرا خوف کچھ کم ہوا تو جج صاحب نے کہا کہ ایک گزارش کرنی ہے۔ میں نے عرض کی کہ جناب! حکم کریں۔ اس پر وہ بولے کہ جب آپ میری عدالت میں مقدمات کی رپورٹنگ کرتے ہیں تو خبر میں کوشش کیا کریں کہ میرے نام کے بجائے صرف ہائیکورٹ کا ذکر کیا کریں اور ریمارکس کو بھی خبر کا حصہ کم سے کم بنایا کریں تاکہ سنسنی خیزی کا تاثر نہ ملے۔ آج جب عدالتی رپورٹنگ دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کیا ساری سختیاں، پابندیاں، آداب، قاعدے اور قانون ہمارے لیے ہی تھے کہ کمرۂ عدالت میں سانس بھی روک کر رکھنا پڑتی تھی۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیاسی مقدمات کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ جو بھی اقتدار میں ہوتا ہے‘ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو زیر کرنے کے لیے قانونی موشگافیوں کا سہارا ضرور لیتا ہے بلکہ بعض کیسز کو دیکھ کر یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اہلِ حَکم اکثر و بیشتر قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید ایسے ہی حالات میں 'جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘ والے محاورے نے جنم لیا تھا۔ وطنِ عزیز میں سیاست دانوں پر مقدمات بنانے کی روایت ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے۔ ابتدا میں جب کسی سیاسی رہنما کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوتا یا اسے عدالت میں طلب کیا جاتا تو وہ کوشش کرتا تھا کہ اس خبر کو مخفی رکھا جائے، پہلے سوشل میڈیا کا زور بھی اتنا نہیں تھا‘ اس لیے اتنی جلدی ایسی چیزیں سامنے نہیں آتی تھیں۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں نے عدالتی پیشیوں اور اپنے مقدمات کو بھی کیش کرانا شروع کر دیا اور ریلیوں اور جلوسوں کی شکل میں کورٹ‘ کچہری آنے لگے۔ اب سوشل میڈیا کی ترقی کے بعد تو ساری حدیں ہی پار ہو چکی ہیں۔ جنہیں عدالتی آداب کی الف بے بھی معلوم نہیں اور آئین و قانون سے رتی بھر بھی واقفیت نہیں‘ وہ بھی سوشل میڈیا فورمز پر دانشور بن کر عدالتی فیصلوں پر غیرضروری اور لایعنی تبصرے کر رہے ہوتے ہیں بلکہ بے جا تنقید کے نشتر بھی برسائے جا رہے ہوتے ہیں جو سراسر غلط روش ہے کیونکہ جب معاشرے میں عدالتوں کا احترام ختم ہو جاتا ہے تو پھر انتشار اور لاقانونیت اپنی راہ بنانا شروع ہو جاتے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ہم نے دیکھا کہ سیاسی رہنمائوں کی عدالتوں میں پیشیوں کو آئین و قانون کے تقاضوں سے زیادہ سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے اور سوشل میڈیا پر باقاعدہ ٹرینڈز چلا کر کارکنوں کو عدالتوں میں جمع کر کے دبائو بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے جو کسی بھی طور اچھی روایت نہیں ہے اور آگے چل کر اس کے منفی نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ خدا نخواستہ اگر یہ روایت بن گئی تو آئندہ عدالت جب بھی کسی طاقتور کو بلائے گی‘ وہ اپنے جتھے لے کر کورٹ میں پہنچ کر دبائو بڑھانے کی کوشش کرے گا۔ آئین و قانون کی نظر میں ہر امیر و غریب‘ طاقتور اور کمزور برابر ہوتا ہے۔ عدلیہ کا احترام ہر کسی پر لازم ہے۔ اس لیے ہمارے قومی رہنمائوں کو چاہئے کہ اپنے کارکنوں کی تربیت کریں اور عدلیہ کے احترام کے حوالے سے خود بھی دوسروں کیلئے مثال بنیں۔