اختیارات کا خمار بعض اوقات انسان سے ایسے فیصلے بھی کرا دیتا ہے جن کا خمیازہ کئی نسلوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی ہم اپنی معمولی اور جھوٹی اَنا کی خاطر ایسے فیصلے بھی کر جاتے ہیں جو ہمیں قومی سطح پر کئی دہائیاں پیچھے دھکیل دیتے ہیں ۔ مجھے مرحوم صحافی دوست امجد چودھری کی ایک بات یاد آتی ہے جو وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ''لوگ اپنے ایک پائو گوشت کے لیے دوسرے کی پوری بھینس ذبح کر دیتے ہیں‘‘۔ ایسے لوگ ہر شعبۂ زندگی میں مل جاتے ہیں اور اسے بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہوتی ہے جو کسی اہم عہدے پر براجمان ہوتے ہیں اور جو اپنے فرائضِ منصبی ایمانداری سے سرانجام دینے کے بجائے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کر کے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر قوم یا معاشرے کے اجتماعی مفاد کو بڑا نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔
عید سے قبل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اساتذہ کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے معروف ادارے فیڈرل کالج آف ایجوکیشن جانے کاموقع ملا تو وہاں طلبہ و طالبات کے والدین کو احتجاج کرتے پایا۔ بظاہر تو یہ احتجاج ایف سی ای کے غیر فعال ہونے پر ہو رہا تھا جس پر طلبہ اور ان کے والدین شدید تشویش کا شکار ہیں۔ اس وقت کالج کو متعدد مسائل کا سامنا ہے۔ ٹرانسپورٹ کی سہولتیں میسر نہیں، صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ درپیش ہے، ٹیچنگ فیکلٹی طلبہ کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے، فنڈز کی کمی کا مسئلہ ہے۔ مگر جب اس معاملے کو گہرائی تک جاننے کی کوشش کی، وہاں موجود شہریوں کا مؤقف سنا، انتظامیہ سے بات چیت کی تو مرحوم امجد چودھری کی بات یاد آ گئی۔ احتجاج کرنے والے شہریوں میں اکثریت کم آمدنی والے لوگوں کی تھی‘ جن کا کہنا تھا کہ وہ موجودہ دور میں اپنے بچوں کو مہنگی تعلیم نہیں دلا سکتے اور یہ ادارہ سستی اور معیاری اعلیٰ تعلیم دے رہا ہے، کوٹہ سسٹم کے باعث اس مادرِ علمی سے فارغ التحصیل اساتذہ پاکستان اور آزادکشمیر کے کونے کونے میں پڑھا رہے ہیں۔ وہاں ایک اعلیٰ سرکاری افسر بھی موجودتھے جن کی بیٹی اس کالج میں بی ایس ایجوکیشن کی طالبہ ہے، انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد کا یہ ادارہ پاکستان میں اساتذہ کی تعلیم و تربیت کا ایک اہم ادارہ ہے جس کا ملک بھر میں سکولوں کے معیارِ تعلیم کو بلند کرنے کے لیے ملک گیر قانونی مینڈیٹ ہے۔ اس ادارے میں نیشنل ٹیچر ایجوکیشن ماڈل کی اَپ گریڈیشن اور پبلک سیکٹر کے اداروں کی استعدادِ کار میں اضافے کے لیے ایک بہترین منصوبہ شروع کیا گیا لیکن اس کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ اس منصوبے کی ابتدائی محرک ادارے کی ایک سابق ڈائریکٹر ہیں جنہوں نے فیکلٹی ممبران کو تربیت دی، اس کا مقصد ٹیکنالوجی کے ذریعے معمول سے ہٹ کر تعلیمی مواد تک رسائی بڑھانے اور اساتذہ کے تدریسی عمل کے تجربے کے معیار کو بڑھانے میں مدد کرنا تھا۔ حال ہی میں ادارے کا ایک نظرثانی شدہ پی سی ون منظوری کے لیے ڈیپارٹمنٹل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (ڈی ڈی ڈبلیو پی) کے اجلاس میں پیش کرنے کے لیے تیار کیا گیا۔ اس نظر ثانی شدہ پی سی ون کو ماہرینِ تعلیم اور محققین نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ اس سے غیر سرکاری تنظیموں (نجی پارٹیوں) کے لیے ایک دروازہ کھل جائے گا اور عوامی پیسے کا ضیاع ہو گا۔ اس معاملے میں رہنمائی کے لیے راقم الحروف نے ایک ماہر تعلیم سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایاکہ مذکورہ منصوبے کا پہلا پی سی ون ایف سی ای کی سابق ڈائریکٹر کی ٹیم نے تیار کیا تھا، اس میں چند آئی ٹی ماہرین کی خدمات کے علاوہ کسی این جی او یا پرائیویٹ پارٹی کی شمولیت کی ضرورت نہیں ہے۔ ماہرینِ تعلیم کے ساتھ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) نے فیڈرل کالج آف ایجوکیشن (ایف سی ای) کو ایک مکمل ڈگری دینے والے ادارے یعنی ''نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایکسیلنس اِن ٹیچر ایجوکیشن‘‘ میں اَپ گریڈ کرنے کی تجویز سے اتفاق کیا۔ ایچ ای سی نے اس سلسلے میں رضامندی کا خط جاری کیا جبکہ وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین نے گزشتہ سال جولائی میں اس کالج کا وزٹ کیا اور اعلان کیا کہ وزارتِ تعلیم کو ہدایت کی گئی ہے کہ کالج کو ٹریننگ سکول آف ایجوکیشن بنانے کیلئے بل کو اسمبلی میں پیش کیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تعلیم کے فروغ اور معیار کو بہتر بنانے کیلئے اساتذہ کی تربیت انتہائی کلیدی کردار ادا کرتی ہے، موجودہ حکومت اساتذہ کی استعدادِ کار کو بہتر بنانے پر کام کر رہی ہے اور یہ کہ اس ادارے کی اَپ گریڈیشن اسی سلسلے کا حصہ ہے۔ لیکن اب نظرثانی شدہ پی سی ون کے تحت ایچ ای سی کے کردار کو نظرانداز کر دیا گیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کالج کی حیثیت ڈگری دینے والے ادارے کی نہیں ہو گی۔یہ وفاقی وزیر کے اعلان اور حکومت کے وژن سے صریح انحراف ہے۔ اب نئے پروجیکٹ کا مقصد اساتذہ کو آئوٹ سورسنگ (نجی شعبے) کے ذریعے تربیت دینا ہے تاکہ ڈیجیٹل مواد کو استعمال کرتے ہوئے تدریسی عمل کو بہتر بنایا جا سکے۔ اب اساتذہ کو ڈگری کے بجائے تربیت کی تکمیل کے بعد سرٹیفکیٹس دیے جائیں گے۔ ماہرینِ تعلیم کے ایک طبقے کا خیال ہے کہ یہ سرٹیفکیٹس بے کار ہوں گے کیونکہ یہ ڈگری دینے والے ادارے؍ قانونی مجاز ادارے سے جاری کردہ نہیں ہوں گے۔
ویسے بھی تربیت کے ڈیجیٹل موڈ کی اتنی اہمیت نہیں کیونکہ اساتذہ کی ذاتی ٹریننگ ہی اصل تربیت ہے۔ ورنہ سینکڑوں ویب سائٹس موجود ہیں جو دن رات اساتذہ کو تربیت فراہم کر رہی ہیں۔ کالج کے ایک ٹیچر نے بتایا کہ ادارے کے بیرونِ ملک سے اعلیٰ تربیت یافتہ، قابل اور تجربہ کار عملے کو نظر انداز کرتے ہوئے اساتذہ کی تربیت کے لیے کسی نجی ادارے کو شامل کرنا غیر ضروری ہونے کیساتھ ساتھ غیر منطقی بھی ہے کیونکہ اس ادارے کے فیکلٹی ممبران اساتذہ کو بہترین تربیت دینے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن بعض افسران مبینہ طور پر یہ کنٹریکٹ پرائیویٹ پارٹیوں کو دینا چاہتے ہیں اس لیے انہوں نے نظر ثانی شدہ پی سی ون میں ان کے لیے ایک کھڑکی کھول دی ہے۔ 96 کروڑ روپے سے زائد کے اس منصوبے میں کک بیکس کے عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ماہرینِ تعلیم کے تمام مشوروں کو نظر انداز کرتے ہوئے اساتذہ کی تربیت کا منصوبہ مکمل سیاسی ایجنڈے پر چلایا جا رہا ہے۔
بات احتجاج کرنے والے والدین سے شروع ہوئی تھی اور پھر معاملے کی تہہ تک چلی گئی۔ ایک سینئرخاتون سکول ٹیچر سے بھی بات ہوئی‘ جنہوں نے بتایا کہ وفاقی وزارت کے بعض حکام کی جانب سے اپنے درپردہ مقاصد پورے کرنے کے لیے چند ہفتے قبل مبینہ کرپشن کی راہ میں حائل فیکلٹی کو ہٹا دیا گیا۔ نئی انتظامیہ اساتذہ کی تربیت اور پی سی ون دستاویز کی الف ب کے بارے میں بھی کچھ نہیں جانتی۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا متعلقہ وزارت میں بیٹھے افسران کو اپنے اختیارات کے استعمال میں کھلی چھوٹ دی گئی ہے؟ موجودہ سنگین معاشی بحران میں سرکاری فنڈز کو قانون کے مطابق خرچ کرنے کے بجائے پرائیویٹ این جی اوز کے سپرد کرنا اور ڈگری پروگرام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرکے سرٹیفکیٹ سطح کا پروگرام شروع کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ وزیراعظم پاکستان کو فوری طور پر اس معاملے کا نوٹس لینا چاہئے۔ سرکاری فنڈز کے جائز استعمال کو یقینی بنا کر ایف سی ای کے طلبہ و طالبات اور ملک بھر کے اساتذہ کرام کا مستقبل محفوظ بنایا جانا چاہیے۔ اعلیٰ عدلیہ کو بھی اس اہم عوامی ایشو کا نوٹس لے کر اس اہم قومی ادارے کو تباہی سے بچانا چاہیے کیونکہ یہ مکمل طور پر بنیادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔