پاکستان کا کُل رقبہ 19 کروڑ 67 لاکھ 20 ہزار 290 ایکڑ ہے۔ اس میں سے 5 کروڑ 60 لاکھ 43 ہزار 414 ایکڑ زرعی رقبہ ہے جبکہ 1 کروڑ 12 لاکھ 43 ہزار 277 ایکڑ رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ پاکستان کا کل زیرِ کاشت رقبہ تقریباً 2 کروڑ 10 لاکھ ایکڑ ہے جس کے زیادہ تر حصے پر گندم، مکئی، چاول، کپاس اور گنا کاشت کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ گزشتہ کالموں میں بتایا کہ جی ڈی پی کا تقریباً ایک چوتھائی اسی شعبے سے حاصل کیا جاتا ہے اور تقریباً نصف ملکی افرادی قوت کاروزگار زراعت ہی سے وابستہ ہے لہٰذا یہی شعبہ پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے قیام پاکستان سے لے کر آج تک زرعی شعبہ ترقی کرنے کے بجائے مسلسل زوال پذیر نظر آتا ہے۔ دورِ جدید میں جوں جوں سائنس ترقی کر رہی ہے اور دنیا زراعت سمیت ہر شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دے کر اپنی پیداواری صلاحیتوں میں کئی گنا اضافہ کر رہی ہے، ہم مزید تنزلی کی جانب رواں دواں ہیں۔ قیام پاکستان کے صرف دو برس بعد‘ 1949ء میں زرعی شعبے کی پیداوار پاکستان کی کل جی ڈی پی کا 53 فیصد تھی جو اب کم ہوتے ہوتے تقریباً 22 فیصد تک آ گئی ہے اور جس تیزی سے ہم نے زرعی رقبے پر ہائوسنگ سوسائٹیاں قائم کرکے نئی بستیاں بسانے کا کام شروع کر رکھا ہے‘ اس سے ہمارا زیرِکاشت رقبہ مزید سکڑتا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کاشتکاری سے دور ہوتی جا رہی ہے جس سے بیروزگاری بھی بڑھ رہی ہے۔
ملک میں صنعتی ترقی کی بنیاد بھی زراعت ہی پر منحصر ہے کیونکہ پاکستان میں سب سے بڑی صنعت ٹیکسٹائل ہے جس کا دار و مدار کپاس کی فصل پر ہے۔ ہمارے جی ڈی پی میں صنعتی شعبے کا حصہ تقریباً ایک چوتھائی ہے جس میں صرف ٹیکسٹائل کا حصہ دس فیصد ہے جبکہ ہماری برآمدات کا 80 فیصد زراعت سے حاصل ہونے والی دیگر پیداوار ہیں۔ اسی لیے اگر کسی سال کپاس یا کسی دوسری بڑی برآمدی فصل کی پیداوار کم ہو جائے تو ہمارا پورا معاشی نقشہ ہی تبدیل ہو جاتاہے اور لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ زراعت میں تنزلی کے باعث ملک میں ہر سال بیروزگاری کی شرح بڑھنے لگی ہے۔ ہمیں خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، امیر و غریب کا فرق بڑھ رہا ہے اور ادائیگیوں میں عدم توازن سے مجموعی ملکی خسارے میں خطرناک حد تک اضافے سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
پاکستان کی موجودہ تباہ حال معیشت کو محض زراعت کی ترقی ہی سے سہارا دیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اس شعبے کی ترقی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔ مسائل کو حل کرنا اور سب سے بڑھ کر حکومتی توجہ سے کسان کو سہولتوں دے کر اس جانب راغب کرنا ہو گا۔ پاکستان میں دنیا کا ایک بڑا نہری نظام ہونے کے باوجود زرعی شعبے کے لیے آبپاشی کی سہولتیں ناکافی ہیں۔ اس خطے کے موزوں موسمی حالات کے باعث سارا سال مختلف فصلیں اگائی جا سکتی ہیں لیکن ہم ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ قدرتی کھاد اور ہموار میدانی علاقے بڑی اہمیت رکھتے ہیں جن سے زیر کاشت رقبے میں اضافے کی بڑی گنجائش ہے اور پیداواری صلاحیتوں میں بھی اضافہ ممکن ہے لیکن ملک میں ڈیموں (میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش) کی کمی کے باعث ہم نظامِ آبپاشی سے صحیح فائدہ نہیں اٹھا سکتے اور ملک میں ہر سال معمول سے زیادہ بارشیں ہونے کے باوجود سارا پانی ضائع ہو جاتا ہے بلکہ اکثر اوقات سیلاب کی صورت میں یہ فصلوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بارشیں مون سون کے موسم میں ہوتی ہیں، ماضی کے تسلسل کی طرح‘ گزشتہ سال بھی پاکستان میں سیلابی پانی نے شدید تباہی مچائی تھی اور کھربوں روپے کا نقصان ہوا۔ اب پھر مون سون کا موسم قریب ہے لیکن حکومت نے بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے اور اس کی تباہی سے بچ کر اسے قابلِ استعمال بنانے کے حوالے سے کچھ نہیں کیا۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے اہم منصوبہ کالاباغ ڈیم ابھی تک ملک دشمنوں کی کامیاب سازشوں کے سبب متنازع چلا آ رہا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کے اندر ہی سے دشمن کو ایسے آلہ کار میسر ہیں جو اس ڈیم کی تعمیر پر اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہونے دیتے۔ کچھ نادان دوست بھی اس عمل میں شریک ہیں۔ اس کے علاوہ زرعی اصلاحات کا نہ ہونا اور جاگیردارانہ نظام بھی اس شعبے کی تنزلی کا ایک اہم سبب ہے۔ جاگیرداری نظام اور غیر منصفانہ پالیسیوں کے سبب چھوٹے کاشتکار کھیتی باڑی ترک کر کے دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری اور کاروبار کرنے یا روزگار تلاش کرنے لگے ہیں۔ جاگیرداروں کی اجارہ داری کے سبب ذخیری اندوزی اور ناجائز منافع خوری عام ہے جبکہ زرعی اصلاحات نہ ہونے کی بڑی وجہ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں میں ان جاگیرداروں کا اثر و رسوخ ہونا ہے۔
جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ پاکستان میں ہموار اراضی کے باوجود ہم نے اپنے زیرِ کاشت رقبے میں اضافے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے اور زراعت کو مزید ترقی دینے کے بجائے موجودہ زرعی اراضی پر بھی دھڑا دھڑ رہائشی منصوبے بناتے جا رہے ہیں جس سے زیرِ کاشت رقبہ ہر سال مزید کم ہو رہا ہے اور یہ زرعی پیداوار میں مسلسل کمی کا باعث بن رہا ہے جبکہ جی ڈی پی میں بھی اس شعبے کاحصہ بڑھنے کے بجائے مسلسل تنزل پذیر ہے اور یہی ہماری معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ کپاس کی پیداوار میں کمی نے بھی پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بری طرح متاثر کیا ہے اور ہمارے ہم پلہ ممالک ہم سے بہت آگے نکلتے جا رہے ہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری متاثر ہونے سے جہاں ایک طرف ہماری برآمدات میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے وہیں بیروزگاری میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ اس صنعت سے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ بات زرعی رقبے پر رہائشی منصوبوں کی ہو رہی تھی، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں‘ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی مثال ہی سامنے رکھتے ہیں کہ جب سے اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ راولپنڈی شہر سے باہر منتقل ہوا ہے‘ جو کہ وقت کی ضرورت تھی‘ تب سے بلکہ اس منصوبے کے شروع ہوتے ہی ضلع اٹک کی تحصیل فتح جنگ، ٹیکسلا، حسن ابدال اور راولپنڈی کے وسیع علاقے ٹائون پلاننگ کے ذریعے اسلام آباد کا حصہ ظاہر کر کے فروخت کیے جا رہے ہیں۔ ان نئی آبادیوں میں سے بیشتر زرعی رقبے پر قائم ہو رہی ہیں جن کے لیے ہمارے متعلقہ ادارے اندھا دھند این او سی اور منظوری دیتے چلے جا رہے ہیں کیونکہ مبینہ طور پر متعلقہ افسران اور اربابِ اختیار کی اکثریت کو ملک کے اجتماعی یا قومی مفاد سے زیادہ ''اپنا حصہ‘‘ نظر آ رہا ہے۔ یہ بات تو کوئی ماہرِآئین وقانون ہی بتا سکتا ہے کہ آئین و قانون میں زرعی شعبے کے تحفظ کے حوالے سے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ ویسے بھی زیرِ کاشت رقبے کو پلاٹنگ کرکے فروخت کرنے کے لیے این اوسی کا حصول اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا آج کل بنا دیاگیاہے۔ اب کوئی بھی سرمایہ دار کسی پیداواری منصوبے میں پیسہ لگانے کے بجائے رئیل اسٹیٹ کو سب سے منافع بخش کاروبار سمجھتے ہوئے کوئی نئی کالونی بنانے ہی کا سوچتاہے اورساتھ ہی اس کی مارکیٹنگ بھی شروع کردی جاتی ہے۔ بعض ایسی مثالیں بھی سامنے آئیں کہ اراضی ایکوائر کرنے سے پہلے ہی یا صرف چند کنال اراضی موجود ہونے کے باوجود ہزاروں کنال رقبے کے پلاٹس فروخت کر دیے گئے۔ کاش دن رات اپنے مخصوص مقاصد کے لیے قانون سازی میں مصروف ہمارے حکمرانوں کی توجہ اس جانب بھی مبذول ہواور وہ ایسی قانون سازی کریں یا پہلے سے موجودہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنائیں کہ ہمارا زرعی رقبہ لینڈ مافیا سے بچ سکے، ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہم مسابقتی مارکیٹ سے مکمل بے دخل ہو جائیں گے اور اپنی بنیادی ضرورت کی اشیا بھی درآمد کرنے پر مجبور ہوں گے۔ (جاری)