وطنِ عزیز کا سارا نظام آج کل نظامِ انصاف کے اردگرد گھوم رہاہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سیاسی جماعتوں کی درخواستیں ہی مرکزو محور بنی ہوئی ہیں اور ملک کے باقی عوام کا کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا، تمام زیر التوا مقدمات کے فیصلے ہو چکے ہیں، مقدمات کی اپیلیں بھی نمٹائی جا چکی ہیں اور سب لوگوں کو انصاف مل چکا ہے۔ سوچتا ہوں کہ شاید سچ مچ ایسا ہو چکا ہے کیونکہ عدالتی اوقات کار والی بات بھی ماضی کا حصہ بن چکی ہے اور اب تو چوبیس گھنٹے انصاف کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تو ایک درخواست پر ہی ریلیف مل جاتاہے اور عدالتیں شام کے بعد تک ملزم کے انتظار میں کھلی رہتی ہیں۔ گزشتہ روز مگر جب میرا ضلع کچہری جانا ہوا تو وہاں وہی سائلین کی لمبی قطاریں‘ اسی طرح پیشی پر آئے ہوئے غریبوں کے چہروں پر بے بسی کے آثار اور صبح سات بجے سے سہ پہر تک انتظار‘ سرکاری عملے کا رویہ بھی بالکل ماضی جیسا ہی تھا جبکہ سکیورٹی اہلکاروں کے سلوک میں بھی کوئی فرق دیکھنے کو نہیں ملا۔ تمام تر حالات و واقعات سو فیصد پرانے پاکستان والے ہی تھے۔ خاندانی دشمنیوں والے قیدیوں کی پیشی پر حفاظتی اقدامات کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا اور نہ ہی کسی معذور یا بزرگ شہری کو کوئی خاص رعایت دی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر پریشانی ہوئی کہ اب تو نہ صرف درخواستیں وقت پر سنی جاتی ہیں بلکہ اگر کوئی مشہور و معروف شخصیت پیشی کے لیے آئے تو اس کی سکیورٹی اور پروٹوکول کا بھی مکمل خیال رکھا جاتا ہے جو یقینا ہمارے مہذب ہونے کا ثبوت ہے کیونکہ زندہ قومیں اپنے قومی ہیروز اور قائدین کا ہمیشہ خیال رکھتی ہیں۔
کچہری میں ایک سینئر وکیل صاحب کے چیمبر میں گیا تو وہ کہنے لگے کہ ''بے شک عدالتیں آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں، لیکن بہترین انصاف وہ ہے جو ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ عدلیہ کا رویہ ایسا ہونا چاہئے کہ تمام فریقین کو عدل کا یقین ہو، ججز کا رویہ کسی کے عہدے، شہرت ، دولت یا اثر و رسوخ کے بجائے ہر سائل کے لیے یکساں ہوتا ہے‘‘۔ انہی وکیل صاحب کے ایک نوجوان شاگرد (جونیئر وکیل) بولے کہ اگر کوئی عدالت ملک کے سابق وزیراعظم یا کسی سیاستدان کو عزت و احترام دیتی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ناانصافی کی جا رہی ہے بلکہ ساری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ پاس بیٹھے ایک وکیل صاحب کہنے لگے کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یونیورسٹی کا کوئی سینئر پروفیسر خدانخواستہ کسی مقدمے میں پھنس جائے (خواہ مقدمہ غلط ہی کیوں نہ ہو) تو پولیس اس کے استاد ہونے یا اس کی بزرگی کا کوئی لحاظ نہیں کرتی اور اسے ہتھکڑی لگا کر چوروں یا دہشت گردوں کی لائن میں عدالت میں پیش کیا جاتا ہے لیکن اگر کوئی سیاست دان‘ خواہ کروڑوں یا اربوں روپے کی کرپشن یا کسی دیگر سنگین مقدمے میں ہی کیوں نہ پکڑا جائے‘ اسے پولیس وین میں فرنٹ سیٹ پر بٹھایا جاتا ہے یا پھر سکیورٹی کے نام پر بھرپور پروٹوکول فراہم کیا جاتا ہے۔
میں پہلے بھی کئی بار اس بات کا ذکر کر چکا ہوں کہ میرے صحافتی کیریئر کا آغاز رپورٹنگ بلکہ کورٹ رپورٹنگ سے ہوا اور کورٹ بھی ہائیکورٹ‘ لہٰذا عدلیہ کا احترام میری تربیت میں شامل ہے اور الفاظ کا چنائو ہمیشہ عدالتی و صحافتی آداب کے مطابق کرتا ہوں، میں ہمیشہ سے عدلیہ کے وقار اور اس کے روایتی احترام کا حامی ہوں اور دوسروں کو بھی یہی تلقین کرتا ہوں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر معزز جج صاحبان کی جانب سے کسی ''ملزم‘‘ کو عزت دی جاتی ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ مقدمے میں بھی کوئی خاص رعایت دیں گے‘ بالکل اسی طرح عدالت کسی فریق کو اگر کسی غلطی پر ڈانٹ دے یا برہمی کا اظہار کرے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں لینا چاہئے کہ اب وہ عدالت اس فریق کے خلاف فیصلہ سنائے گی۔ ججز کے برتائو، ان کے ریمارکس اور قانونی فیصلے میں اکثر فرق نظر آتا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ فیصلہ قانون کے مطابق ہوتا ہے۔ شاید میری پریشانی کا سبب میرا ماضی کا وہ تجربہ یا مشاہدہ بھی ہے جو میں نے کورٹ رپورٹنگ کے دوران بار ہا دیکھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری عدالتوں میں بھی انسان ہی بیٹھے ہیں اور ان سے بھی غلطی ہونے کا احتمال ہے‘ شاید ماضی میں کہیں نہ کہیں کسی عدالت میں کسی فریق کو خاص رعایت یا ریلیف ملتا رہا ہو گا لیکن بظاہر معزز جج صاحبان کا رویہ ایسا ہوتا تھاکہ کہیں لچک دکھائی نہیں دیتی تھی اور کسی فریق کو بھی عدالتی آداب کی خلاف ورزی یا توہین کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ججز اعلیٰ تعلیم یافتہ اور معاشرے کے سب سے باشعور طبقات میں سے ایک ہیں، اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ ان کی اپنی کوئی ذاتی رائے نہ ہو، لیکن کم از کم ماضی میں یہ ضرور ہوتا تھا کہ کسی عدالت کی کارروائی سے کسی جج کی سیاسی پسند و ناپسند کی جھلک نظر نہیں آتی تھی۔ گزشتہ چند برسوں سے (شاید مجھے ایسا لگتا ہے کہ) بعض معزز جج صاحبان کے عدالتی ریمارکس کسی نہ کسی فریق کو تنقید کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ یقینا ججز کے تمام فیصلے آئین و قانون کے مطابق ہی ہوتے ہیں لیکن ریمارکس میں شاید الفاظ کا چنائو اس طرح نہیں کیا جاتا جو اس اعلیٰ منصب اور وقار کے شایانِ شان ہے۔ عدالت کے کٹہرے میں ایک مزدور اور ایک بزنس مین برابر حیثیت رکھتے ہیں، ایک عام شہری یا سیاستدان یکساں سلوک کے مستحق ہیں، ان میں تفریق صرف اور صرف ان کے جرم یا رویے کے مطابق ہونی چاہئے اور وہ بھی جب الزام ثابت ہو جائے یا ٹھوس شواہد موجود ہوں۔
ملک بھر کی سول کورٹس سے لے کر اعلیٰ ترین عدالتوں تک‘ ہر سطح پر لاکھوں کیسز زیر التوا ہیں، ہزاروں‘ لاکھوں لوگ انصاف کی تلاش میں دربدر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، ہزاروں مقدمات کے فیصلے مدعی کے مرنے کے بعد ہوئے یا اب بھی ہو رہے ہیں جبکہ لاکھوں مرد و خواتین شہری جھوٹے و بے بنیاد مقدمات کی پاداش میں اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ جیلوں میں گزار دیتے ہیں۔ کئی اپنی کروڑوں‘ اربوں روپے کی جائیداد سے محروم ہونے کے بعد انصاف کے حصول کے لیے دھکے کھاتے نظر آتے ہیں اور اپنی ہی پراپرٹی میں قدم رکھنے کی اجازت پانے کے لیے زندگی بھر کی کمائی مقدمات کی فیسوں میں جھونک دیتے ہیں۔ بہت سے تو ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی انصاف نہیں مل پاتا اور وہ اسی عالم میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف کئی جعل ساز اور فراڈیے جعلی دستاویزات کی بنیاد پر سٹے آرڈر لے کر غریبوں کی اربوں روپے کی پراپرٹی پر قبضہ کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔ سیاسی مقدمات ضرور سنے جائیں اور لوگوں کو ریلیف بھی فراہم کیا جائے کیونکہ اس بات میں رتی بھر بھی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان پر جھوٹے مقدمات درج کرا دیے جاتے ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کی اکثریت جب خود اقتدار میں ہوتی ہے تو اس وقت وہ طاقت اور اختیار کے خمار میں مبتلا ہو جاتی ہے مگر جب یہ حزبِ اختلاف میں ہوں تو پھر دنیا میں ان سے بڑا مظلوم کوئی نہیں نظر آتا۔ سالہا سال سے زیر التوا دیوانی و فوجداری مقدمات کو بھی ترجیحی بنیادوں پر نمٹانا چاہیے تاکہ برسوں سے انصاف کے منتظر غریب شہریوں کو ان کا حق مل سکے۔ جیسا کہ پہلے کہاکہ عدالتیں بلاشبہ آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں لیکن عدل کا بنیادی اصول یہی ہے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے کیونکہ ایک غریب، بے بس، بے سہارا اور مظلوم شہری کے لیے اللہ تعالیٰ کے بعد اس دنیا میں امید کی واحد کرن عدلیہ ہی ہوتی ہے۔