گزشتہ روز والد کا عالمی دن یعنی فادرز ڈے منایا گیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ماں اور باپ کے بغیر تو انسان کی زندگی کا ایک دن بھی مکمل نہیں ہو سکتا، جب تک والدین کا سایہ سر پہ قائم رہتا ہے‘ انسان ہر طرح کی فکر سے آزاد رہتا ہے، والدین غریب یا ان پڑھ ہوں‘ تب بھی وہ ہمیشہ اپنی حیثیت اور ہمت سے بڑھ کر اپنی اولاد کی خواہشات پوری کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اولاد کو اس وقت تک والدین کی قدر نہیں ہوتی جب تک وہ خود صاحبِ اولاد نہ ہوجائے۔
گزشتہ روز صبح اٹھا تو سوشل میڈیا پر ہر طرف ''ہیپی فادرز ڈے‘‘ کے سٹیٹس اور پیغامات دیکھے۔ ہم نے بھی اپنے والد محترم کی محبت میں ان کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ''باپ سراں دے تاج محمدؔ تے ماواں ٹھنڈیاں چھاواں‘‘ لیکن میں سوچ رہا تھا کہ میری نصف صدی سے زائد عمر میں ایک دن بھی ایسا نہیں جو ماں اور باپ کی دعائوں کے بغیر گزرا ہو، بظاہر والد صاحب کی ڈانٹ بھی سننا پڑتی ہے، ناراضی بھی دیکھنے کو ملتی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ باپ کبھی نہ تو دل سے ڈانٹتا ہے اور نہ ہی کبھی اولاد سے ناراض ہوتا ہے، والد کی ڈانٹ تو محض ہماری اصلاح کے لیے ہوتی ہے۔ بچپن میں پرائمری سکول کے نصاب میں ایک شعر پڑھا تھا جس کی جھلک کہیں کہیں موجودہ دور کی نوجوان نسل میں نظر آتی ہے، جو وسائل کے سبب جدید تعلیم حاصل کرنے میں تو کامیاب ہو گئی لیکن شاید والدین کی کاروباری یا سرکاری مصروفیات کے باعث تربیت میں کمی رہ گئی۔ شعر یوں تھا:
ہم ایسی کل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کر لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
والد کے عالمی دن کے موقع پر مجھے اپنا دوست ارشد بہت یاد آیا جو بہت زیادہ ذہنی دبائو کا شکار تھا اور چند روز قبل ہی ایک حادثے کا شکار ہو گیا تھا۔ ارشد کے بارے میں آگے چل کر بات کریں گے‘ پہلے ماں اور باپ کے حوالے سے کچھ بات ہو جائے۔ باپ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے لفظی معنی والد، مربی، پالنے والا، بانی، موجد، مورث، جد اعلیٰ اور بہت بڑا کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بچہ پیدا ہوا تو گھر کی عورتوں نے اسے گھیر لیا اور اس کے ناک نقشہ پر تبصرے ہونے لگے۔ ایک نے کہا: اس کی آنکھیں باپ کی طرح ہیں۔ دوسری نے کہا: اس کا ناک ماں جیسا ہے۔ تیسری بولی: ماتھا بالکل دادی کا ہے۔ چوتھی نے کہا: ٹھوڑی بالکل ماموں کی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایک عورت جو ذرا ہٹ کر بیٹھی ہوئی تھی‘ از راہ مذاق کہنے لگی کہ اس غریب کا اپنا بھی کچھ ہے یا سب کچھ مانگا تانگا ہی ہے۔
یہ لطیفہ عام سوچ کے عین مطابق ہے۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ بچہ جینز(Genes) کا ایک سیٹ باپ سے لیتا ہے اور ایک سیٹ ماں سے اور پھر وہ دونوں آپس میں یوں گڈمڈ ہو جاتے ہیں کہ محض اتفاق سے وہ بعض کیریکٹر یا بناوٹ باپ کی طرف سے لے لیتا ہے اور بعض خصوصیات ماں کی طرف سے‘ مثلاً جیسے یہ کہا جائے کہ بچے نے حسِ مزاح ماں سے لی ہے اور پیشے کا رجحان باپ سے۔ لیکن نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ یہ محض اتفاق نہیں کہ بعض کیریکٹر باپ سے آتے ہیں اور بعض ماں کی طرف سے بلکہ انسانی وجود کے مخصوص اور معلوم حصے ہیں جو باپ یا ماں کی طرف سے بچے کو ورثے میں ملتے ہیں۔ مثلاً دماغ کا وہ حصہ جو ہمارے جذبات کوکنٹرول کرتا ہے وہ باپ کے جینز سے بنتا ہے اور دماغ کا وہ حصہ جس کا تعلق قوتِ فیصلہ اور ذہانت سے ہے وہ ماں کی طرف سے آتا ہے۔ دس سال پہلے تک جینز کے ماہرین کا خیال تھا کہ جینز بس جینز ہی ہوتے ہیں ان میں نر و مادہ کی تخصیص نہیں ہوتی لہٰذا وہ خواہ باپ کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف سے‘ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن یہ تصور اب باقی نہیں رہا۔ جینز میں بھی نر و مادہ کی تخصیص ہوتی ہے اور ہر ایک کا جسم کی تخلیق میں ایک طے شدہ حصہ ہوتا ہے۔ بعض ناسمجھ لوگ ماں اور باپ کے رشتے، تقدس، احترام اور حقوق میں موازنہ کرتے رہتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ تفریق ہوتی تو شاید خاندانی نظام ہی کامیاب نہ ہو پاتا۔ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی کے رشتے کو ہی ایک خاندان کی بنیاد بنایا ہے اور وہ اولاد ہمیشہ متاثر رہتی ہے جنہیں ماں یا باپ میں سے کسی ایک کے بغیر رہنا پڑے یا والدین کی علیحدگی کا دکھ برداشت کرنا پڑے۔ ایسے بچے احساسِ کمتری کا شکار تو ہوتے ہی ہیں‘ مال و دولت کے باوجود ان کی زندگی کا سکون بھی غارت ہو جاتا ہے۔
میں اپنے دوست ارشد کی بات کر رہا تھا‘ جو اب اپنے بچوں سے بہت دور جا چکا ہے۔ آج جب اس کی اولاد کو اپنے باپ کے بارے میں اس کے دوستوں اور دوسروں سے حقائق معلوم ہوئے تو وہ شرمندہ بھی ہیں اور شدید پچھتاوے کا شکار بھی لیکن 'اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘۔ ارشد اپنی اولاد کی خواہشات پوری کرنے کے لیے دن رات کوشاں رہتا، لیکن غربت کے باعث شاید اپنی بیوی اور بچوں کی تمام فرمائشیں پوری نہ کر پاتا۔ میں نے ارشد کو تنہائی میں زار و قطار روتے بھی دیکھا اور اپنے رب سے التجا کرتے ہوئے بھی، لیکن اس کی بیوی ہمیشہ اس پر الزام لگاتی کہ شاید اس نے کوئی دوسری شادی کر رکھی ہے یا اپنی نصف آمدن کہیں اور خرچ کر دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ ان کی فرمائشیں پوری نہیں کر پاتا۔ اس کے بچے بھی اپنی ماں کی باتوں کو سچ سمجھنے لگے تھے۔ میں اکثر اسے پریشان دیکھتا، وہ رات گئے تک دفتر میں بیٹھا رہتا، ہمیشہ کسی سائیڈ بزنس یا پارٹ ٹائم کام کی تلاش جاری رکھتا، پیسے کمانے کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا لیکن ان سب کے باوجود اس کی آمدنی اور گھریلو اخراجات کا توازن خراب ہی رہتا اور اس کی فیملی اس کی محنت اور خلوص سے کی جانے والی کوششوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھتی۔
ایک روز ارشد میرے پاس آیا، مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتا ہے لیکن اسے ہمت نہیں ہو رہی۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی، میرے اصرار پر کہنے لگا کہ بیٹی کی فیس کے لیے ایک دوست سے ایک لاکھ روپیہ ادھار لیا تھا، وعدے کے مطابق واپس نہیں کر سکا، صبح بیٹی کی فیس کی دوسری قسط جمع کرانی ہے اور ابھی تک کہیں سے بندوبست نہیں ہو پایا، جبکہ اس دوست سے بھی مزید ادھار مانگنے کی جرأت نہیں ہو رہی کیونکہ پہلے ہی اس کا مقروض ہوں۔ اسی دوران اس کی بیوی کی کال آئی، اس نے فون پر کیا کہا‘ یہ تو مجھے نہیں علم لیکن فون سنتے ہوئے ارشد کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ صرف یہی کہہ رہا تھا کہ کوشش کر رہا ہوں‘ اللہ پاک بہتر کرے گا۔ اس کال کے بعد وہ اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکا اور زار و قطار رونے لگا۔ ارشد بہت اعلیٰ درجے کا مصور اور خطاط تھا، میں نے اسے کہا کہ وہ آرٹس کونسل میں ایک دو گھنٹے روزانہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو خطاطی یا پینٹنگ کی تربیت دے کر اچھے پیسے کما سکتا ہے۔ارشد نے آہ بھرتے ہوئے بتایا کہ وہ یہ کام پہلے کر چکا ہے، لیکن اس کی بیوی نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ شاید نوجوان لڑکیوں سے گپ شپ کے لیے وہاں جاتا ہے اور پھر یہ بات اس کی اولاد کے ذہن میں بھی بیٹھ گئی جس پر اس نے وہ کام چھوڑ دیا تھا۔ ارشد نے جذبات میں اپنے کئی دکھڑے بیان کر دیے، وہ اندر سے ٹوٹا ہوا انسان تھا جو مصنوعی مسکراہٹ لیے اپنی فیملی کے لیے مارا مارا پھر رہا تھا۔ آج ارشد ہم میں نہیں، مگر میں نے سوشل میڈیا پر دیکھا‘ اس کے بیٹے نے بھی ''ہیپی فادرز ڈے‘ کا سٹیٹس لگایا ہوا تھا، اب اس کا کیا فائدہ جب انہوں نے اپنے باپ کی زندگی میں ہی اس کی قدر نہ کی۔