عیدالاضحی میں چند روز ہی باقی رہ گئے ہیں لیکن ابھی تک عید کی تیاریاں اس طرح کہیں نظر نہیں آ رہی ہیں جیسا کہ ہمارے بچپن میں کئی کئی ماہ پہلے ہی عید کا انتظار شروع ہو جاتا تھا۔ بڑی عید میں اس وقت ایک ہفتے سے بھی کم دن رہ گئے ہیں لیکن ابھی تک کسی دوست یا عزیز کی طرف سے عید کارڈ ملنا تو دور کی بات‘ کہیں عید کارڈز کا سٹال بھی نظر نہیں آیا۔ مہندی اور چوڑیوں کے سٹالز بھی شاید اب صرف چاند رات کو ہی لگیں گے، عزیز و اقارب کی دعوتیں اور عید ملن پارٹیاں‘ جوکبھی کئی ماہ پہلے ہی طے ہو جایا کرتی تھیں، ابھی تک ان کی بابت کسی طرف سے کوئی لفظ بھی سننے کو نہیں ملا۔ چند عشرے پیچھے جائیں تو بڑی عید سے کئی مہینے پہلے ہی قربانی کے جانور خرید کر ان کی خدمت مدارت شروع کر دی جاتی تھی لیکن یقین کریں کہ یہ سطور لکھنے تک ہم نے اپنی گلی میں دُلہے کی طرح سجایا ہوا کوئی بکرا یا بیل نہیں دیکھا۔ شہر میں عید پر سجنے والے کسی میلے کا ابھی تک کوئی اشتہار بھی نظر سے نہیں گزرا۔ اب تو عید جیسا مذہبی تہوار چاند رات کو شروع ہوتا ہے اور عید کی نماز پڑھنے کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ عیدالاضحی جو پہلے مکمل سہ روزہ تہوار تھا‘ اب قربانی کے فریضے کی تکمیل کے ساتھ ہی انجام کو پہنچ جاتی ہے۔
مہنگائی، بیروزگاری اور اس سائنسی دور نے عید کی حقیقی خوشیاں بھی چھین لی ہیں۔ اب تو عید صرف امیروں کی رہ گئی ہے، غریب اور سفید پوش افراد تو صرف فریضہ سمجھ کر عید کا تہوار مناتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہم قربانی کے لیے بکرے عید سے کئی ماہ پہلے ہی خرید لیتے تھے اور پھر روزانہ شام کو انہیں چرانے کیلئے باہر لے کر جاتے تھے۔ خوبصورت رسیاں اور گلے میں ٹلی (گھنٹی) باندھ کر محلے میں بڑے فخر سے انہیں گھماتے تھے۔ عید والے دن کسی قصاب کو بلانے کے بجائے ہمارے سارے دوست اور رشتہ دار قربانی کے لیے جمع ہوتے تھے۔ ذبح سے گوشت بنانے تک کا سارا کام خود ہی مل جل کر کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد علاقے میں گوشت کی تقسیم کی روایت بھی بڑی خوبصورت تھی، یعنی جانور کی خریداری سے گوشت کی تقسیم تک عید کی خوشیاں منائی جاتی تھیں۔ اب تو عید سے ایک یا دو روز قبل جانور خریدا جاتا ہے، گھر لانے کے بعد اس جانور کے چارے اور پانی کا خاص انتظام کرنے کے بجائے سیلفیاں اور ٹک ٹاک وڈیوز بنانے پر ہی سارا وقت صرف کر دیا جاتا ہے۔ ہم نے تو ایسے لوگ بھی دیکھے جو عید کے پہلے یا دوسرے روز منڈی جا کر قربانی کا جانور خریدتے ہیں کیونکہ ان کے پاس جانور رکھنے یا باندھنے کی جگہ ہی نہیں ہوتی اور بعض لوگ اس لیے آخری دن کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ شاید ریٹ کچھ کم ہو جائیں۔ قربانی کے لیے اب دوستوں اور عزیز و اقارب کو مدعو کرنے کے بجائے قصاب کے ساتھ ذبح اور گوشت بنانے کا ٹھیکہ کر لیاجاتا ہے اور پھر اپنی گلی کے دوچار قریبی گھروں میں گوشت دینے کے بعد ڈیپ فریزر بھر لیاجاتا ہے یعنی قربانی کی وہ ساری روایتیں اب دم توڑ چکی ہیں بلکہ اب تو اکثر لوگ آن لائن قربانی کی بکنگ کروا کر ہی اپنا فریضہ ادا کر لیتے ہیں۔
چند دہائیوں قبل تک عید چھوٹی ہوتی یا بڑی‘ کم ازکم دو ماہ پہلے ہی عید کارڈز خرید لیے جاتے اور ڈاک خانے والے بھی اعلان کر دیا کرتے تھے کہ فلاں تاریخ تک تمام عیدکارڈز عام ڈاک ٹکٹ پر بھیجے جا سکتے ہیں۔ ہم مقررہ تاریخ سے قبل ہی فہرست بنا لیتے تھے کہ کس کس کو کارڈ بھیجنا ہے، پھر بڑی محنت سے عیدکارڈز کو سجایا جاتا اور سارے کارڈز لیٹر بکس کے حوالے کر دیے جاتے۔ اسی طرح عید سے کم از کم دس‘ بارہ دن قبل ہی دوستوں اور پیاروں کی جانب سے عید کارڈز موصول ہونا شروع ہو جاتے تھے، بقرہ عید پر عید ملن پارٹیوں اور مختلف تقریبات کے دعوت نامے بھی ساتھ ہی موصول ہو جاتے تھے مگر اب تو یہ روایت سرے سے دم توڑ چکی ہے۔ عید کارڈز کی جگہ پہلے ایس ایم ایس نے لی، پھر فیس بک اور اب وَٹس ایپ نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔ ایک ہی کارڈ ڈیزائن کرکے تمام رابطہ نمبروں پر بھیج کر یہ روایت نبھا دی جاتی ہے۔ ہمارے بچپن میں والدہ صاحبہ اور دادی اماں چاند رات کو ہی ایک خاص قسم کا حلوہ پکانا شروع کر دیتی تھیں۔ اس خاص حلوے کو ہمارے علاقے میں ''مکھڈی حلوہ‘‘ کہتے ہیں۔ عید کی صبح سب سے پہلے یہ حلوہ آس پڑوس میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ عید ملنے کے لیے آنے والے دوست احباب کی تواضع بھی اسی روایتی سویٹ ڈش سے کی جاتی تھی لیکن اب عید کے روایتی پکوان محدود ہو چکے ہیں۔ عید کی مبارکباد کے لیے عزیز و اقارب کے گھر جانا اور دعوتِ طعام کا اہتمام بھی ماضی کی روایت بن چکا ہے۔ کئی گھروں میں عید والے دن بھی کسی ریسٹورنٹ کی ہوم ڈلیوری سروس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور اگر بھولا بھٹکا کوئی مہمان آ ہی جائے تو فوری طور پر آڈر کر دیا جاتا ہے اور بیس منٹ میں پکا پکایا کھانا گھر پہنچ جاتا ہے۔
عید کے موقع پر پورا ماضی خاص طور پر بچپن نظروں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔ آج جب کالم لکھنے کے لیے موضوع کا انتخاب کرنے کے لیے خبروں پر نظر ڈال رہا تھا تو عید کی چھٹیوں کا نظرثانی شدہ نوٹیفکیشن سامنے آیا جسے دیکھ کر سوچنے لگاکہ عیدالاضحی سر پر آپہنچی ہے لیکن ابھی تک عید والا ماحول نظر نہیں آرہا۔ خود حکومت بھی واضح نہیں ہے کہ عید پر کتنی چھٹیاں دی جائیں گی۔ پہلے ان دفاتر میں‘ جو ہفتے میں چھ دن کھلتے ہیں‘ تین چھٹیوں کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ پانچ دن کھلنے والے دفاتر کو دو چھٹیاں دی گئی تھیں مگر اب نظرِ ثانی شدہ نوٹیفکیشن میں 28 جون کو بھی عید تعطیل کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ بیسویں صدی کے آخری عشروں کی عید اوردورِ حاضر کی عید میں بڑا فرق آچکاہے، پہلے گائوں میں بیری کے کسی اونچے سے پیڑ کے ساتھ لمبی رسی کے ساتھ پینگ (جھولا) باندھنے کارواج ہوتا تھا جہاں خاندان کے تمام لڑکے اورلڑکیاں باری باری جھولا جھولتے اورخوب انجوائے کرتے تھے ، آج کل جھولا تو دور کی بات‘ ایک دوسرے سے عید ملنے اور گپ شپ کارواج بھی معدوم ہوچکاہے۔ عید پر لگنے والے میلے بھی ماضی کاحصہ بن گئے،سرکس اورموت کاکنواں بھی اب کہیں نظر نہیں آتے۔ گائوں میں بیلوں کی دوڑ کا انعقاد اب سالوں بعد ہوتا ہے۔ جس تیزی سے ہماری خوبصورت روایتیں دم توڑ رہی ہیں ایسا لگتا ہے کہ آئندہ چند برس تک شاید اہل خانہ بھی عید والے دن سوشل میڈیا سٹیٹس کے ذریعے ہی ایک دوسرے کو عید مبارک کہیں گے۔ چند برس پہلے تک تو حج والے دن بھی نئے کپڑے پہننے، تیار ہونے اور ایک دوسرے کو حج کی مبارکباد دینے کارواج تھا، سبھی افراد تیار ہو کر ٹی وی اور ریڈیو کے آگے بیٹھ جاتے تھے اور حج کے خطبے کو سنا جاتا تھا۔ آج اگر عید کی تیاریوں کا ماضی سے موازنہ کیا جائے تو آج کی عید صرف کیلنڈر کی ایک تاریخ اور ایک مذہبی رسم بن کر رہ گئی ہے۔
موجودہ مشینی دور میں جہاں ایک طرف زندگی ایک جہدِ مسلسل بن چکی ہے اور ہمارے پاس اپنے اہلِ خانہ کیلئے بھی وقت نہیں رہا‘ کم ازکم ہمیں عید جیسے تہواروں پر ہی اپنے اور اپنی فیملی کیلئے وقت نکالنا چاہئے۔ بچوں کو ماضی کی اچھی روایات کے بارے میں بتانا چاہئے اور انہیں عید کے موقع پر ساتھ لے کر اپنے تمام عزیز و اقارب کے گھر جاناچاہئے، اپنے دوستوں اور عزیزوں کو گھر دعوت پر بلانا چاہئے تاکہ سال بھر مصروفیات کے باعث پیدا ہونے والی دوریاں اور کدورتیں ختم کی جاسکیں،ایک دوسرے کو تحائف دیے جائیں تاکہ رشتوں کا احساس پیدا ہوا اور باہمی احترام میں اضافہ ہوسکے۔اب اگرچہ عید کارڈز کی روایت ختم ہوگئی ہے لیکن اب بھی جس کسی کا عید کارڈ ملتا ہے‘ خوشی کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہے لہٰذا اگر ہم جہاں دیگر اتنے اخراجات کرتے رہتے ہیں تو وہاں اگر اپنے پیاروں کو چند سو روپے کے عید کارڈز ہی بھیج دیں تو یقین کریں کہ ہماری یہ کاوش سب سے منفرد نظر آئے گی کیونکہ اب عام لوگ ''عید مبارک‘‘ ایک میسج یا سوشل میڈیا کے ذریعے ہی کہتے ہیں۔ یقین کریں کہ اگر ہم عید کے موقع پر ماضی کی کوئی ایک بھی اچھی روایت زندہ کریں تو اس سے نہ صرف ہمارے بچوں کی خوشیاں دوبالا ہوں گی بلکہ اس مصروف ترین زندگی میں خاندانی قربت کا خوشگوار احساس بھی پیدا ہو گا اور شاید یہی عید کی حقیقی خوشیاں ہوتی ہیں۔