امتِ مسلمہ جب تک قرآن و سنت پر عمل پیرا رہی تو نہ صرف سیاسی طور پر دنیا پر حکمرانی کی بلکہ سائنسی طور پر بھی دنیا پر راج کیا۔ تمام مذاہب اور خطوں سے تعلق رکھنے والی اقوام سائنس و ٹیکنالوجی سمیت جملہ علوم و فنون سیکھنے کے لیے مسلم ممالک کی درسگاہوں کا اسی طرح رخ کیا کرتی تھیں جیسے آج کے مسلمان عصری علوم و فنون سیکھنے کے لیے مغربی ممالک کے محتاج بنے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں آج کا ترقی یافتہ یورپ تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، جسے وہ خود بھی ''ڈارک ایجز‘‘ یعنی تاریک ادوار سے یاد کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا زوال اس وقت شروع ہوا جب وہ قرآن و سنت سے دور ہوتے چلے گئے اور اتفاق و اتحاد کی دولت کو گنوا بیٹھے۔ شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے مسلمانوں کے عروج و زوال کی کہانی کیا خوب انداز میں بیان کی ہے کہ ع
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
سویڈن میں ایک بار پھر قرآن پاک کی بے حرمتی پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ جب بھی ایسی کوئی ناپاک جسارت کی جاتی ہے تو بلاشبہ مسلم ممالک یک زبان ہو جاتے ہیں اور اس قسم کی فتنہ انگیزی پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر امتِ مسلمہ حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ اور نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کے احکامات پر عمل پیرا ہو تو پھر کسی کو ایسی ناپاک جسارت کرنے کی ہمت ہو سکتی ہے؟ اس سے قبل بھی دشمنانِ اسلام گستاخانہ خاکے بنا کر مسلمانوں کی دلآزاری کرتے رہے تو کبھی کتابِ مقدس کی بے حرمتی کرکے اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی ناکام سعی کرتے رہے۔ اب سویڈن کے دلخراش واقعے پر پاکستان سمیت مسلم ممالک نے شدید مذمت کی ہے۔ پاکستان، سعودی عرب اور ترکیہ سمیت دیگر مسلم ممالک نے عید پر سویڈن کی مسجد کے باہر قرآن پاک کی بے حرمتی کو قابلِ مذمت فعل قرار دیا ہے، جبکہ مراکش نے سویڈن سے احتجاجاً اپنا سفیر بھی واپس بلا لیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ ایران اس واقعے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سویڈن میں اپنا نیا سفیر فی الوقت نہیں بھیجے گا۔ اگرچہ سویڈن میں نئے سفیر کی تعیناتی کا انتظامی طریق کار مکمل ہو چکا ہے لیکن سویڈش حکومت کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کا اجازت نامہ جاری کرنے کی وجہ سے سفیر بھیجنے کا عمل روک دیا گیا ہے۔ ایران کی وزارتِ خارجہ نے جمعرات کے روز سویڈن کے ناظم الامور کو طلب کر کے اس واقعے کی مذمت بھی کی اور اسے مقدس ترین اسلامی کتاب کی صریح توہین قرار دیا۔ ترک صدر اردوان نے کہا ہے کہ مغرب کو سکھائیں گے کہ کتابِ مقدس کی توہین کرنا اظہارِ رائے کی آزادی نہیں، ہم اشتعال انگیزی اور دھمکیوں کی سیاست کے سامنے نہیں جھکیں گے۔ متحدہ عرب امارات اور عراق نے سویڈن کے سفیر کو طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا ہے جبکہ فلسطین نے اس واقعے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ قطر نے خبردار کیا ہے کہ آزادیٔ اظہارِ رائے کی آڑ میں مذہبی مقدسات کی بار بار بے حرمتی کی اجازت دینا نفرت اور تشدد کو ہوا دیتا ہے، ایسے اقدامات کو بہرطور روکنا ہو گا۔کویت کی وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی خطرناک امر اور اشتعال انگیزی ہے جس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ مصر نے بھی اس واقعے کو شرمناک قرار دیا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں اس شرمناک فعل کیخلاف بھرپور احتجاج کیا جا رہا ہے اور مظاہرین اپنے اپنے ممالک سے سویڈش سفیر کو ملک بدر کرنے کے مطالبات کر رہے ہیں۔ عراق کے دارالحکومت بغداد میں سویڈن کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے مظاہرین سفارتخانے میں داخل ہو گئے۔ تہران میں بھی سویڈن سفارتخانے کے باہر مظاہرہ کیا گیا اور مظاہرین نے سفیر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا۔
سویڈن کی حکومت نے بے حرمتی کے اس واقعے کو انفرادی فعل قرار دے دیا ہے۔ پاکستان میں سویڈن کے سفارت خانے کی جانب سے حکومت کا مؤقف سوشل ویب سائٹ ٹویٹر پر پوسٹ کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سویڈش حکومت اسلامو فوبیا پر مبنی اس عمل کو سختی سے مسترد کرتی ہے‘ یہ واقعہ سویڈن کی حکومت کا موقف واضح نہیں کرتا۔ دوسری جانب سویڈن میں ہونے والی گھنائونی حرکت کو یورپی یونین نے کھلم کھلا اشتعال انگیزی قرار دیا ہے۔ یورپی یونین نے واضح کیا ہے کہ ایسے غیر مہذب فعل کی یورپ میں کوئی جگہ نہیں، یہ کسی بھی طرح یورپی ممالک کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتا، سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی یقینا ایک جارحانہ عمل اور اشتعال انگیزی کی کوشش ہے۔ مذہب، عقیدے اور اظہارِ رائے کی آزادی کے لیے کھڑے ہیں، وقت آ گیاہے کہ باہمی افہام و تفہیم اور احترام کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہو جائیں۔
اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے قرآنِ مجید کی بے حرمتی کے واقعات کی روک تھام کے لیے اجتماعی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ مذہبی منافرت کو روکنے کے لیے بین الاقوامی قوانین کو بروئے کار لایا جانا چاہیے۔ سعودی عرب کے شہر جدہ میں تنظیم کا ایک غیر معمولی اجلاس ہوا جس میں سویڈن میں بدھ کو‘ عیدالاضحی کے روز قرآنِ مجید کی بے حرمتی کے واقعے اور اس کے مضمرات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طہٰ نے کہا کہ ہمیں بین الاقوامی قانون کے فوری اطلاق کے بارے میں بین الاقوامی برادری کو مسلسل یاددہانی کرانی چاہیے۔ یہ قانون واضح طور پر مذہبی منافرت کی وکالت کی ممانعت کرتا ہے۔ او آئی سی نے عالمی سطح پر انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام کو فروغ دینے اور ان کی حوصلہ افزائی کے سلسلے میں اقوام متحدہ کے منشور پر عمل کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
آج پوری دنیا کے مسلمان اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآنِ مجید کی بے حرمتی کے خلاف یک جان اور یک زبان ہونے کے ساتھ ساتھ سراپا احتجاج ہیں۔ یہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے‘ حضور نبی کریم خاتم النبیینﷺ کی شانِ اقدس اور کتاب اللہ قرآنِ مجید کے تقدس میں کسی بھی قسم کی کمی یا بے حرمتی امتِ مسلمہ کے لیے ناقابلِ معافی اور ناقابلِ برداشت جرائم ہیں جن کی سزا ناقابلِ معافی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس کسی نے بھی ایسی ناپاک جسارت کی‘ اس کا انجام عبرتناک ہی ہوا لیکن اس کے باوجود کچھ انتہا پسند و جنونی ایسی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ اگر اسرائیل کی جانب سے قبلہ اول کی بار بار بے حرمتی کا جواب امتِ مسلمہ نے متحد ہوکر دیا ہوتا تو شاید آج ایسی نوبت ہی نہ آتی اور کسی کو مسلمانوں کی دلآزاری کی جرأت نہ ہوتی لیکن بدقسمتی سے قبلہ اول کے مسئلے پر پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر مسلم ممالک نے اسرائیل کا بائیکاٹ تو کیا لیکن بحیثیت امت متحد ہوکر قبلہ اول کی حفاظت کے لیے کوئی ٹھوس عملی قدم نہیں اٹھایا جس کی وجہ سے آج تک وہاں اسرائیل کی ناپاک سازشیں جاری ہیں اور فلسطینی مسلمان پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ او آئی سی سمیت تمام مسلم ممالک صرف احتجاج ریکارڈ کرانے کے بجائے یورپی و مغربی اقوام سمیت پوری دنیا پر واضح پیغام دیں کہ اگر آئندہ کسی بھی ملک میں ایسی ناپاک جسارت ہوئی اور وہاں کی حکومت نے سخت نوٹس لیتے ہوئے گستاخ فرد و گروہ کو قرار واقعی سزا نہ دی تو پھر وہ ملک مشترکہ طور پر عالم اسلام کا دشمن قرار دیا جائے گا اور اس کے خلاف اعلانِ جنگ ہوگا، شاید اس بیان کے بعد دوبارہ کوئی ایسا دلخراش واقعہ پیش نہ آئے اور کسی کو بھی ایسے ناپاک فعل کی جسارت نہ ہو۔