آبی تنازعات‘ پاکستان کی کامیابی

تقسیمِ ہند سے تاحال پاک بھارت آبی تنازعات جاری ہیں اور ہمارا مکار ہمسایہ دیگر چیزوں کی طرح پانی کو بھی ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا آیا ہے۔ کبھی ہمارے دریائوں پر بند باندھ کر پانی کو روکا گیا اور ملکی زراعت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی توکبھی بغیر اطلاع کے دریائوں میں پانی چھوڑ کر پاکستان میں سیلاب پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے ہی تنازعات کی روک تھام کے لیے 1960ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تقریباً چھ برس کے طویل مذاکرات کے بعد سندھ طاس معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔ اس معاہدے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کہ بھارت نے پاکستان کی زراعت کو نقصان پہنچانے کے لیے 1948ء میں مشرقی دریائوں کے پانی کو پاکستان میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ بھارت کے اس جارحانہ رویے کی وجہ سے اور پاکستان کی زراعت کو بچانے کے لیے پاکستان نے یہ مسئلہ 1951ء میں اقوام متحدہ میں اٹھایا۔ اقوام متحدہ کی سفارشات کی بنیاد پر سندھ طاس معاہدے کے لیے 1954ء میں مذاکرات شروع ہوئے۔ ورلڈ بینک کے توسط سے طے پانے والے معاہدے کی رو سے پاکستان کو مغربی دریائوں سندھ، جہلم اور چناب کے بلاتعطل استعمال کی اجازت ملی اور بھارت کو راوی، بیاس اور ستلج کے مکمل استعمال کا اختیار دیا گیا۔ اس معاہدے پر عمل درآمد اور اختلافات کو طے کرنے کے لیے دونوں ممالک پر مشتمل ایک مستقل انڈس کمیشن کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ اس معاہدے کے تحت پانی کے استعمال پر تکنیکی اختلافات ایک غیر جانبدار ماہر کے ذریعے طے کیے جانے پر اتفاق ہوا اور سنجیدہ تنازعات کی صورت میں ثالثی عدالت سے رجوع کیے جانے پر آمادگی ظاہر کی گئی۔
سندھ طاس معاہدہ دو حریف ہمسایہ ممالک کے درمیان ایک تیسرے فریق کی معاونت سے طے کیے جانے والا کامیاب معاہدہ سمجھا جاتا ہے اور پاکستان اور بھارت کے مابین چار جنگوں اور اس معاہدے پر پچھلے ساٹھ سالوں سے تکنیکی اختلافات کے باوجود‘ اس پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے کے تحت قائم کمیشن ایک تسلسل کے ساتھ ہر سال ملتا رہا اور اب تک اس کمیشن کے سو سے زیادہ اجلاس دونوں ممالک میں منعقد ہو چکے ہیں۔ ان اجلاسوں میں اہلکاروں کے علاوہ انجینئرز اور تکنیکی ماہرین شرکت کرتے ہیں۔ ان میں سیلاب کے اعداد و شمار کی تفصیلات، مجوزہ منصوبوں کی معلومات، پانی کے بہائو اور بارشوں کی صورت حال جیسے موضوعات پر بات چیت ہوتی ہے۔ 2019 ء میں پاکستان میں ہونے والا اجلاس پلوامہ واقعے کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا تھا اور 2020ء میں اجلاس کورونا کی عالمی وبا کے باعث منعقد نہیں ہو سکا۔ ابتدا میں یہ معاہدہ نسبتاً کم مسائل کے ساتھ آگے چلتا رہا اور اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک میں آبپاشی اور بجلی پیدا کرنے کے لیے بڑے ڈیم بنائے گئے جن میں تربیلا اور منگلا ڈیم بھی شامل ہیں، لیکن گزشتہ تین دہائیوں میں اس معاہدے پر عمل درآمد میں مسائل پیش آنا شروع ہو گئے۔ زیادہ تر مسائل بھارت کی جانب سے مغربی دریائوں پر نئے ڈیمز بنانے کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ ان مسائل کا حل اور پاکستان کی تشویش کا اظہار مستقل کمیشن کے مختلف اجلاسوں میں بھی کیا گیا مگر دونوں فریقوں میں اتفاقِ رائے نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر مسائل غیر جانبدار ماہر اور ثالثی عدالت کے ذریعے حل کیے گئے یا انہیں حل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
2008ء میں پاکستان کے اعتراضات کو غیر جانبدار ماہر نے تکنیکی بنیادوں پر مسترد کرتے ہوئے بگلیہار ڈیم کی تعمیر کو جاری رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ اسی طرح 2013ء میں ہیگ (نیدر لینڈز) میں بین الاقوامی ثالثی عدالت نے کشن گنگا ڈیم کے بارے میں بھی پاکستانی اعتراضات کو رد کر کے بھارت کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ پاکستان نے اس کے علاوہ بھی مغربی دریائوں پر بننے والے دیگر بھارتی ڈیموں کے بارے میں تکنیکی اعتراضات اٹھائے اور 2016ء میں اپنی تشویش کا اظہار عالمی بینک سے کیا۔ عالمی بینک نے ثالثی میں ایک وقفے کا اعلان کیا‘ اور یہ وقفہ حال ہی میں ایک غیر جانبدار ماہر کی تعیناتی اور ثالثی عدالت کے قیام سے ختم ہو گیا ہے۔ عالمی بینک کے اس اعلان کے ساتھ ہی بھارت نے پاکستان کو گزشتہ دنوں ایک نوٹس بھیجا جس میں معاہدے میں تبدیلیوں کے لیے مذاکرات کا کہا گیا۔ روایتی حریف بھارت یہ الزام بھی لگاتا ہے کہ پاکستان ان دریائوں کے پانی کا مؤثر استعمال نہیں کرتا جس سے یہ پانی سمندر برد ہو جاتا ہے۔ یہ نوٹس بھارت کی طرف سے اس معاہدے کے خاتمے کی ابتدائی کوشش دکھائی دیتا ہے۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ پاکستان کے 2008ء سے بھارت کے مختلف ڈیمز بنانے پر تکنیکی اعتراضات کو بین الاقوامی ماہرین کیوں اہمیت نہیں دے رہے تھے‘ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اعتراضات اچھے قانونی طریقے سے پیش ہی نہیں کیے جاتے رہے۔ سندھ طاس معاہدہ عالمی ضمانت سے طے پایا تھا اور اس سے نکلنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ خود بھارت کے آبی ماہرین بھی کہہ رہے ہیں کہ سندھ طاس معاہدے سے نکلنے سے انڈیا کے اپنے آبی مفادات کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ بھارت کے بڑے دریا برہم پتر اور دریائے سندھ کے مآخذ چین میں ہیں۔ اگر بھارت اس معاہدے یا عالمی ثالثی کو مسترد کرتا ہے تو کل کو چین بھی ایسا ہی قدم اٹھا کے بھارت کی زراعت اور نظام آبپاشی کو سخت نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بہت سے ماہرین کے نزدیک پاکستانی اعتراضات اور خدشات کو مسترد کیے جانے کی وجہ ادارہ جاتی اہلیت کو بڑھانے میں ناکامی ہے۔ مستقل کمیشن کے بیشتر پاکستانی سربراہ مبینہ طور پر سیاسی بنیادوں پر یا مقتدر حلقوں میں تعلقات کی بنیاد پر مقرر کیے جاتے رہے۔ چونکہ ان کی اپنی اہلیت مشکوک رہی لہٰذا وہ اپنے ادارے میں سندھ طاس معاہدے کے بارے میں نہ ہی تکنیکی، تخلیقی اور نہ ہی کوئی قانونی مہارت پیدا کر سکے۔ اس مہارت کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم بھارتی منصوبوں پر ایسے اعتراضات اٹھاتے رہے جو بین الاقوامی ماہرین کی نظروں میں معاہدے کی شقوں کے مطابق درست نہیں تھے۔ ان سماعتوں میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان کی نمائندگی کرنے والے قانونی ماہرین کی اپنی اہلیت بھی مشکوک تھی۔ اس کے مقابلے میں بھارت سندھ طاس معاہدے کو بہت اہمیت دیتا ہے اور وہاں پر آبی معاملات کے تکنیکی اور قانونی مسائل کی بہت سوجھ بوجھ پائی جاتی ہے۔ بھارت میں آبی وسائل کی وزارت کے اہلکار آبی وسائل اور اس کے استعمال کے ماہرین ہوتے ہیں اور لمبے عرصے تک ان وزارتوں میں کام کرتے رہتے ہیں جس سے ان کی مہارت پاکستانی نمائندوں سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ دوسری جانب ہمارے ہاں آبی وسائل کے ماہرین کے بجائے اہم تکنیکی وزارتوں میں بھی ڈی ایم جی افسران کو تعینات کر دیا جاتا ہے اور اکثر انہیں مہینوں بعد ہی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
2007ء میں کشن گنگا ڈیم پر ہائیڈرو پاور پروجیکٹ شروع ہوا تو پاکستان کو پانی کی فراہمی متاثر ہوئی جس پر پاکستان نے پانی کی فراہمی کے معاملے پر بھارت کے خلاف عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا۔ پاکستان نے انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی کی بنیاد پر عالمی ثالثی عدالت میں کیس دائر کیا۔ عالمی ثالثی عدالت نے 2013ء میں بھارت کو ڈیزائن میں تبدیلی کے ساتھ کشن گنگا پروجیکٹ کی مشروط اجازت دی۔ واضح رہے کہ بھارت نے کشن گنگا ڈیم کیس کو عالمی ثالثی عدالت کے دائرۂ اختیار سے نکالنے کی درخواست کی تھی۔ عالمی محاذ پر بھارت کے خلاف پاکستان کو اس کیس میں بڑی کامیابی ملی۔ اب عالمی ثالثی عدالت ہیگ نے پاکستان کی درخواست پر بھارتی اعتراضات مسترد کر دیے ہیں۔ اب بین الاقوامی ثالثی عدالت پاکستان کے دعوے کی میرٹ پر سماعت شروع کرے گی۔ ثالثی عدالت کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹس کے ڈیزائن پر تنازع کے تعین کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ ضروری ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے اس بار اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھا جائے اور غلطی کی کوئی گنجائش نہ چھوڑی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں