کھیل، سیاست اور کھلاڑیوں کا تحفظ

پاکستان ایک پُرامن ملک ہے اور پاکستانی قوم بھی کھیلوں سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔ ہمارا قومی کھیل ہاکی ہے لیکن تقریباً تین‘ چار دہائیوں سے ملک میں کرکٹ کا جنون اس قدر پھیل چکا ہے کہ کوئی گلی، محلہ، گائوں اور شہر ایسا نہیں جہاں یہ کھیل نہ کھیلا جاتا ہو۔ ہماری قومی کرکٹ ٹیم دنیا کی وہ بہترین ٹیم ہے جو ٹیسٹ کرکٹ کی نمبرون ٹیم بنی، آئی سی سی ورلڈ چیمپئن بنی، ٹی ٹونٹی انٹرنیشنل ورلڈکپ جیتا، ایشیا کپ اور چیمپئنز ٹرافی میں بھی فتح کا تاج اپنے سر سجایا جبکہ دنیا کی کوئی ایسی کرکٹ ٹیم نہیں ہے جسے ہمارے شاہینوں نے شکست نہ دی ہو۔ ویسے تو یہ قدرتی امر ہے کہ دنیا بھر میں ہرکوئی اپنی ٹیم اور اپنے ملک کے کھلاڑیوں کو ہی سپورٹ کرتا ہے لیکن پاکستانی قوم ہمیشہ سے اچھی کرکٹ کو سپورٹ کرتی آئی ہے اور ملک میں روایتی حریف بھارت سمیت جتنی بھی ٹیمیں آج تک دو طرفہ انٹرنیشنل سیریز یا کسی بین الاقوامی ٹورنامنٹ کے لیے پاکستان آئیں تو یہاں نہ صرف ان کا بھرپور استقبال کیا گیا اور مہمانوں کی حفاظت کی گئی بلکہ اپنی مہمان نوازی سے ہمیشہ غیر ملکیوں کے دل بھی جیتے گئے۔
ہمارا ہمسایہ ملک بھارت مگر دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور وطن عزیز پاکستان میں بدامنی، دہشت گردی اور تخریب کاری کیلئے ہر وقت مذموم سازشوں میں مصروف رہتا ہے حتیٰ کہ بھارت نے کھیل کے میدانوں کو بھی سیاست کی نذر کر دیا ہے اور انہیں بھی دشمنی نبھانے کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے۔ پاکستان میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر لاہور میں حملہ ہوا تو اس کے پیچھے بھارت ہی کا ہاتھ تھا اور اس کا مقصد پاکستان میں کرکٹ سمیت بین الاقوامی کھیلوں پر پابندی عائد کرانا تھا جس میں کئی سالوں تک ہمارا دشمن کامیاب بھی رہا؛ تاہم ہماری بہادر افواج نے دہشت گردوں کے خلاف بھرپور آپریشن کیا اور انہیں شکست دے کر ملک میں دوبارہ امن قائم کیا اور دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان ایک پُرامن اور کھیلوں کیلئے محفوظ ملک ہے۔
رواں برس پاکستان فیڈریشن بیس بال اور بیس بال فیڈریشن آف ایشیا کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ویسٹ ایشیا بیس بال کپ منعقد ہوا تو اس میں بھارتی ٹیم نے بھی شرکت کی؛ تاہم پاکستان کی جانب سے بروقت ویزے جاری ہونے کے باوجود بھارتی حکام نے اپنی ٹیم کو خواہ مخواہ دو دن تک واہگہ بارڈر پر روکے رکھا جس کی وجہ سے انڈین ٹیم ایک انٹرنیشنل میچ کھیلنے سے محروم ہو گئی۔ جب بھارتی ٹیم کو اس کی اپنی حکومت کی جانب سے پاکستان داخل ہونے کی اجازت ملی تو واہگہ بارڈر سے اِس طرف پاک سرزمین پر ہمسایہ ملک کے کھلاڑیوں کا معزز مہمانوں کی طرح بھرپور استقبال کیا گیا اور انہیں پاکستان کی مہمان نوازی اتنی پسند آئی کہ وہ واپسی تک پاکستانی قوم اور یہاں کے بہترین سکیورٹی انتظامات کی تعریف کرتے رہے۔ اس کے برعکس جب ہماری فٹ بال ٹیم نے ساف چیمپئن شپ کیلئے بھارت جانا تھا تو نہ صرف ان کے ویزے میں تاخیر کی گئی بلکہ عین وقت پر ویزہ نہ ملنے سے ٹیم کو فلائٹ بھی چھوڑنا پڑی۔ اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ بھارتی حکومت بلکہ انتہا پسند تنظیمیں پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں اور دھمکیاں دینے سے بھی باز نہیں آتیں۔
پاکستان کی میزبانی میں ہونے والے ایشیا کپ میں بھارت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں کھیلنے سے انکار کر دیا جس کے بعد پی سی بی نے سری لنکا کو دوسرے وینیو کے طور پر منتخب کیا۔ اب پاکستان ٹیم نے آئی سی سی کرکٹ ورلڈکپ 2023ء کے سلسلے میں بھارت جانا ہے‘ جس کیلئے حکومت پاکستان نے قومی ٹیم کو بھارت جانے کی اجازت دے دی ہے۔ اس حوالے سے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ کھیل اور سیاست علیحدہ ہیں‘ پاک بھارت تعلقات انٹرنیشنل سپورٹس کی راہ میں حائل نہیں ہونے چاہئیں۔ پاکستان کو بھارت میں سکیورٹی پر تحفظات برقرار ہیں، آئی سی سی اور بھارتی حکومت کو تحفظات سے آگاہ کریں گے۔ امید ہے بھارت میں پاکستان ٹیم کو بھرپور سکیورٹی حاصل ہو گی۔ یہ فیصلہ یقینا تعمیری اور ذمہ دارانہ رویے کا عکاس ہے۔ بھارت نے ایشیا کپ کیلئے اپنی کرکٹ ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے انکار کیا مگر پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کیلئے بھارت جائے گی۔ خیال رہے کہ ورلڈکپ میں پاکستان اپنا پہلا میچ نیدرلینڈز کے خلاف 6 اکتوبر کو کھیلے گا جبکہ پاک بھارت میچ 14 اکتوبر کو کھیلے جانے کا امکان ہے۔
حکومت پاکستان نے قومی ٹیم کو ورلڈکپ میں شرکت کی اجازت تو دے دی ہے لیکن اپنے قومی ہیروز کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس وقت بھارت میں انتہاپسند تنظیموں کی بدمعاشی اور تخریبی کارروائیاں عروج پر ہیں اور بھارت کی اقلیتیں بالخصوص مسلمان بالکل بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اب قومی ٹیم نے ورلڈکپ میں شرکت کیلئے بھارت جانا ہے تو پی سی بی کے علاوہ بھارتی سکیورٹی ادارے بھی پریشانی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ ایک بھارتی چینل کا کہنا ہے کہ کولکتہ پولیس پاکستان اور انگلینڈ میچ کے لیے مکمل سکیورٹی دینے سے قاصر ہے۔ کولکتہ پولیس نے کرکٹ ایسوسی ایشن بنگال سے رابطہ کر کے کہا ہے کہ ''کالی پوجا‘‘ کی وجہ سے میچ کیلئے سکیورٹی کی فراہمی مسئلہ ہو گا۔ ورلڈکپ میں پاکستان اور انگلینڈ کا میچ 12 نومبر کو کولکتہ میں کھیلا جانا ہے۔ صدر کرکٹ ایسوسی ایشن آف بنگال کا کہنا ہے کہ ہمیں میچ ری شیڈول کرنے کے بارے میں باضابطہ طور پر نہیں کہا گیا۔ ادھر احمدآباد پولیس نے بھی ''نوراتری‘‘ کی وجہ سے 15 اکتوبر کو پاک بھارت میچ میں سکیورٹی کی فراہمی سے معذوری ظاہر کی ہے۔ بورڈ آف کنٹرول کرکٹ اِن انڈیا (بی سی سی آئی) اس حوالے سے پہلے ہی ورلڈ کپ شیڈول میں تبدیلی کا عزم ظاہر کر چکا ہے۔ کرکٹ ایسوسی ایشن آف بنگال (سی اے بی) نے بی سی سی آئی سے میچ ایک روز قبل یعنی 11 نومبر کو کرانے کی سفارش کی ہے؛ تاہم اس سفارش پر بی سی سی آئی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے مشاورت کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے گا۔ اگر آئی سی سی حکام رضامند ہوئے تو یہ میچ ایک روز قبل کرایا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو 11 نومبر کو ورلڈ کپ میں ڈبل ہیڈر کھیلا جائے گا‘ یعنی ایک ہی گرائونڈ میں یکے بعد دیگرے دو میچز ہوں گے۔ ورلڈکپ 2023ء کا تبدیل شدہ شیڈول کل بروز منگل کو آئی سی سی کی جانب سے جاری کیا جائے گا۔
بلاشبہ ہمارے قومی کھلاڑی ہر طرح کے مقابلے کے لیے تیار ہیں اور وہ روایتی حریف کو گھر میں گھس کر مارنے (شکست دینے) کے لیے بھی پُرعزم ہیں لیکن وہاں پاکستانی کھلاڑیوں کو درپیش خطرات سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ آئی سی سی ورلڈ کپ کے دوران بھارت میں مختلف مذہبی تہوار آ رہے ہیں جس کی وجہ سے بھارتی پولیس مقامی تہواروں کی سکیورٹی ڈیوٹی میں مصروف ہو گی اور شاید اس دوران پاکستان ٹیم کو فول پروف سکیورٹی فراہم نہ کر سکے جس کی پاکستانی ٹیم کو سخت ضرورت ہے لہٰذا ہماری حکومت خصوصاً وزارتِ خارجہ اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہئے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور بی سی سی آئی سے پاکستان ٹیم، آفیشلز، میڈیا اور شائقین کرکٹ کی حفاظت سے متعلق مکمل گارنٹی لی جائے، خصوصاً قومی ٹیم کی سکیورٹی پر ہرگز کوئی کمپرومائز نہ کیا جائے اور جب تک بھارتی حکومت یا وہاں کے متعلقہ اداروں کی جانب سے مکمل یقین دہانی نہیں کرائی جاتی‘ اس وقت تک ٹیم کو بھارت نہ بھیجا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم دنیا کی بہترین ٹیم ہے اور روایتی حریف کو ہوم گرائونڈ میں شکست دینے سمیت ورلڈکپ جیتنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے لیکن ہمارے لیے ٹرافی سے زیادہ اپنے کھلاڑیوں کی سکیورٹی اہمیت رکھتی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر اعلیٰ سطحی سکیورٹی وفد بھارت بھیجا جائے اور اگر تسلی بخش انتظامات یا بھارتی سکیورٹی اداروں کی طرف سے کسی قسم کا کوئی ابہام یا شک و شبہ ہے تو قومی ہیروز کو کسی نئے امتحان میں ڈالنے سے گریز کیا جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں