بٹگرام ریسکیو آپریشن

بدقسمتی سے سوشل میڈیا نے ہر کسی کو خود ساختہ دانشور اور تجزیہ کار بنا دیا ہے۔ جو یونین کونسل کی سیاست سے بھی نابلد ہیں‘ وہ روز صبح و شام حکومتیں بنانے اور گرانے کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ بات یہاں تک ہی رہتی تو بھی شاید قابلِ برداشت تھی مگر صورتحال اب یہ ہو گئی ہے کہ جن لوگوں کو دفاعی اداروں کے رینکس تک کا نہیں پتا‘ وہ بھی وردی پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہوتے ہیں۔ کوئی بھی باشعور شخص ایسے خود ساختہ تجزیہ کاروں سے چند منٹ گفتگو کرلے تو اسے اندازہ ہو جائے گا کہ انہیں ریاستی اداروں کے آپریشنز بارے الف ب بھی معلوم نہیں۔ آج کل سکیورٹی فورسز پر تنقید یا سیاسی مخالفت میں کی جاتی ہے یا پھر بعض عاقبت نااندیش سوشل میڈیا پر اپنی مشہوری کے لیے ملک و ملت کا وقار اور قومی سلامتی تک دائو پر لگا دیتے ہیں۔ کاش بھارت، اسرائیل اور دیگر بیرونی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے یہ جاہل اور بزعم خویش دانشور اپنی شہری ذمہ داریوں کا ادراک کرتے اور دشمن کے بیانیے کو بڑھانے سے گریز کرتے۔ اگر یہ مذکورہ ممالک میں سے کسی ریاست کے شہری ہوتے اور وہاں پر یہی سب کچھ کرتے تو اب تک جیلوں میں سڑ رہے ہوتے۔ یہ ہماری پاک فوج ہی کا اعزاز ہے کہ اندرون و بیرونِ ملک بیٹھے افراد کی بے جا تنقید کرنے کے باوجود چوبیس گھنٹے قوم کے جان و مال اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے سرگرم عمل ہے۔
منگل کا واقعہ ہمارے سامنے ہے کہ جب خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام کی تحصیل الائی کی یونین کونسل بٹنگی پاشتو میں کیبل کار‘ جسے مقامی زبان میں ''ڈولی‘‘ کہا جاتا ہے‘ کی رسیاں ٹوٹنے سے یہ ڈولی دو پہاڑوں کے بیچ پھنس کر رہ گئی۔ صبح سوا سات بجے کے قریب یہ واقعہ پیش آیا اور ڈولی میں سکول جانے والے چھ بچے اور دو اساتذہ موجود تھے۔ اطلاع ملتے ہی پاک فوج کے کمانڈوز نے ریسکیو آپریشن کا آغاز کیا اور اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر طویل اور مشکل ریسکیو آپریشن کے بعد کیبل کار میں پھنسے تمام آٹھ افراد کو بحفاظت ریسکیو کرلیا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق دو بچوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے نکالا گیا جبکہ دیگر چھ افراد کو ''زِپ لائن‘‘ کے ذریعے ریسکیو کیا گیا۔ ان افراد کو بچانے کے لیے پہلے ایس ایس جی کی سلنگ ٹیم اور پاکستان آرمی ایوی ایشن کے ہیلی کاپٹرز نے ریسکیو آپریشن کا آغاز کیا۔ آپریشن کی ابتدائی کوششیں موسم کی خرابی اور کیبل کار کے محض ایک رسی پر جھولنے کے سبب ناکام رہیں، دو مرتبہ ہیلی کاپٹر سے ریسکیو آپریشن کیا گیا مگر ہوا کے دبائو کی وجہ سے کامیابی نہیں مل سکی، جس کے بعد ریسکیو ٹیموں نے ''زِپ لائن‘‘ کی سٹریٹجی اپنائی اور بفضلِ خدا اس میں کامیابی ملی۔ ہوا میں معلق کیبل کار سے ہیلی کاپٹر کی مدد سے دو بچوں کو ریسکیو کیا گیا؛ تاہم اندھیرا ہو جانے اور ہوا کا پریشر بڑھ جانے سے ہیلی ریسکیو آپریشن روک دیا گیا۔ جی او سی ایس ایس جی ریسکیو آپریشن کی نگرانی کے لیے خود جائے وقوعہ پر پہنچے اور آرمی ریسکیو آپریشن کی براہِ راست نگرانی کی۔ اندھیرا ہونے کے بعد دیگر طریقوں سے ڈولی میں پھنسے بچوں کو ریسکیو کرنے کا عمل شروع کیا گیا، جس کے بعد تمام افراد کو بحفاظت ریسکیو کر لیا گیا۔ کیبل کار میں پھنسے افراد کو ریسکیو کرنے کیلئے دو مقامی افراد کی دلیری اور جذبے کو بھی خراجِ تحسین پیش کرنا ہوگا جنہوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا۔اس سے قبل ایک چھوٹی ڈولی سے ان افراد کے پاس کھانے پینے کی اشیا اور ضروری ادویات بھی بھیجی گئیں۔
مقامی افراد اس ڈولی کو ایک پہاڑ سے دوسری طرف جانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ یہ ڈولی پہاڑوں کے بیچ برساتی نالہ جہانگیری خوڑ پر نصب ہے اور تقریباً دو ہزار میٹر کی بلندی پر لگی ہوئی ہے۔ ایک سکول ٹیچر نے بتایا کہ اس علاقے میں ڈیڑھ سو بچے ہر روز اسی طرح اس ڈولی کے ذریعے سکول آتے‘ جاتے ہیں۔ ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر جانے کیلئے یہ ڈولی لگائی گئی ہے اور اسے نجی طور پر آپریٹ کیا جاتا ہے۔ فوج کی جانب سے ہیلی کاپٹر کی مدد سے ریسکیو آپریشن دوپہر کے وقت شروع کیا گیا مگر تیز ہواؤں کی وجہ سے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے کیے جانے والے سلنگ آپریشن میں جب ہیلی کاپٹر سے رسی کی مدد سے لٹکے ہوئے ایک کمانڈو نے ڈولی کے قریب جانے کی کوشش کی تو ہوا کے دباؤ کی وجہ سے ڈولی نے جھولنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے اس کے گرنے کے خدشات کافی بڑھ گئے۔ مذکورہ ڈولی سے متعلق معلوم ہوا ہے کہ اس کی تین رسیاں تھیں جن میں سے دو رسیاں ٹوٹ چکی تھیں‘ اب یہ ایک رسی پر جھول رہی تھی۔ این ڈی ایم اے کے مطابق جس جگہ یہ ہوا میں معلق تھی‘ وہاں سے زمین لگ بھگ ایک ہزار فٹ نیچے تھی۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جب ہیلی کاپٹر کو کیبل کارکے اوپر لایا گیا اور رسیاں پھینکی گئیں تو ایک بچے نے خود کو رسی سے باندھا جس پر اسے ریسکیو کیا گیا مگر دیگر نے انکار کر دیا۔ پھنسے ہوئے بچوں کو راضی کرنے کی انتھک کوشش کی گئی مگر وہ نہ مانے، لہٰذا ہیلی کاپٹر سے ریسکیو آپریشن کو معطل کر دیا گیا اور زِپ لائن کا استعمال کیا گیا۔ اس کی تصدیق مقامی ریسکیور ''صاحب خان‘‘ کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ ''میں اُس بچے کو پہلے لانا چاہتا تھا جس کی طبیعت زیادہ خراب تھی لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہ بچے بہت ڈر رہے تھے۔ اس سے قبل جب ہیلی کاپٹر فضا میں چکر لگا رہا تھا تو اس کی تیز ہوا سے بھی جب لفٹ حرکت کرتی تھی تو یہ بچے خاصے خوفزدہ ہو جاتے تھے۔ جب میں چھوٹی سی لفٹ (زِپ لائن) میں وہاں پہنچا تو یہ بچے اس میں بیٹھنے سے بھی ڈر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہم اس لفٹ پر نہیں بیٹھیں گے‘ یہ گر جائے گی۔ اس پر میں نے ان کو حوصلہ دیا اور ان سے کہا میں ان کے ساتھ ہوں‘ اگر اس میں خطرہ ہوتا تو میں کیوں اس میں آتا اور اس طرح اپنی جان کو خطرے میں کیوں ڈالتا‘‘۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سپیشل سروسز گروپ کے جنرل آفیسر کمانڈنگ نے ریسکیو آپریشن کی قیادت کی۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ہدایت پر آرمی ایوی ایشن اور ایس ایس جی ٹیموں نے ریسکیو آپریشن کا آغاز کیا اور پاک فوج کے سپیشل سروسز گروپ کی سلنگ ٹیم اور پاک فضائیہ کے ہیلی کاپٹر آپریشن کا حصہ بنے۔ سلنگ ٹیم کو آرمی ایوی ایشن نے مکمل تکنیکی مدد فراہم کی۔ آپریشن میں پاک فوج اور پاک فضائیہ کے پائلٹس نے بے مثال مہارت اور کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ شام ہونے کے بعد ریسکیو آپریشن کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ریسکیو 1122 اور مقامی کیبل ایکسپرٹ کی بھی خدمات حاصل کی گئیں۔ ذرائع کے مطابق ابتدا میں ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ریسکیو کرنا موزوں تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا گیا، مسلسل کوششوں کے بعد جب تک دو بچوں کو ہیلی کاپٹر کی مدد سے ریسکیو کیا گیا‘ تب تک ہوا کا رُخ تبدیل ہو چکا تھا اور اندھیرا چھا گیا تھا جس کے باعث ہیلی کاپٹرز کی مدد سے ریسکیو آپریشن جاری رکھنا محال ہو گیا تھا۔یہ ایک انتہائی مشکل اور کٹھن آپریشن تھا جس میں پاک فوج کے ساتھ سول انتظامیہ اور مقامی لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ہماری بہادر افواج ملکی سرحدوں کی حفاظت انتہائی جانفشانی سے کر رہی ہیں اور جذبۂ شہادت سے ہر وقت سرشار رہتی ہیں۔ آئے روز سرحدوں پر ہمارے جوان قربانیاں دے رہے ہیں جبکہ دہشت گردی کے واقعات کا نشانہ بھی زیادہ تر ہمارے جوان ہی بنتے ہیں۔ ہمارے فوجی بھائی جاگتے ہیں تو ہی ہم اپنے گھروں میں سکون کی نیند سو پاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وطن عزیز میں جب بھی کہیں زلزلہ، سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ، طوفان یا کوئی بھی قدرتی آفت آتی ہے، یا کسی ہنگامی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا جب بھی دیگر ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ پانی سر سے گزرنے لگاہے توپھر پہلا اور آخری سہارا ہماری بہادر افواج ہی رہ جاتی ہیں۔ بات یہاں بھی ختم نہیں ہوتی بلکہ اب تو سڑکوں وپلوں کی ہنگامی تعمیرومرمت سے لے کر احتجاجی مظاہروں، دھرنوں اور کسی بھی ہنگامی صورتحال میں امن وامان برقرار رکھنے کے لیے بھی پاک فوج کے دستے ہی کام آتے ہیں۔ بے جا تنقید کے نشتر برسانے والے جب اپنے ہی ملک کے اداروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں تو انہیں اس قسم کی خدمات کیوں بھول جاتی ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں