گزشتہ دو دہائیوں سے ملک میں بجلی کا بحران کسی نہ کسی شکل میں برقرار چلا آ رہا ہے۔ پہلے ملک میں بجلی کی طلب و رسد میں نمایاں فرق تھا اور شارٹ فال اس قدر بڑھ چکا تھا کہ لوڈشیڈنگ سے بھی اس بحران پر قابو پانا مشکل ہو گیا تھا لیکن اِس وقت پاکستان میں بجلی کی پیداوار بہتر ہے اور شارٹ فال میں نمایاں کمی آ چکی ہے لیکن بجلی کے نرخ اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ عام آدمی کے لیے یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔ گزشتہ ہفتے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی داخلی شاہراہ ایکسپریس وے پر ایک بزرگ شہری نے بجلی کا بل تھامے کھنہ پل سے مبینہ طور پر چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔ اس واقعے نے قوم کو مزید افسردہ کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی افراد کی بجلی کے ہوشربا بلوں کے باعث خودکشی کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب غریبوں کو دوبارہ لالٹین جلا کر گزارہ کرنا پڑے گا، لیکن اب لالٹین میں پڑنے والا تیل بھی تین سو روپے لیٹر ہو چکا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں توانائی کی بچت کے حوالے حکومتی اور عوامی‘ دونوں سطحات پر کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اس وقت سب سے اہم مسئلہ بجلی کی قیمت میں بڑا اضافہ ہے جس کی اصل وجہ بلوں میں متعدد ٹیکسوں کا نفاذ ہے۔ اس حوالے سے پاور ڈویژن حکام کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کو بجلی کے بلوں میں لگائے گئے ٹیکسوں سے متعلق تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ جوائنٹ سیکرٹری پاور فنانس نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ مالی سال کپیسٹی پیمنٹس 1300 ارب روپے رہیں، رواں مالی سال پاور سیکٹر کی کپیسٹی پیمنٹس 2000 ارب روپے کا تخمینہ ہے۔ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی سی پی اے) کے حکام کے مطابق کپیسٹی پیمنٹ میں ساڑھے 500 ارب روپے کا اضافہ محض ڈالر اور روپے کی شرح تبادلہ کے باعث ہوا۔ یہ سہ ماہی (کوارٹرلی) ایڈجسٹمنٹ میں عوام سے وصول کیا جاتا ہے۔ مختلف آئی پی پیز کے معاہدوں کی میعاد مختلف ہے۔ 1994ء کے آئی پی پیز معاہدے 2027ء میں ختم ہوں گے۔
بجلی کے نرخ آسمان پر پہنچنے کے باوجود ہم نے دن کی روشنی کا صحیح استعمال نہیں کیا، حالانکہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا میں انہی ممالک نے ترقی کی منازل طے کی ہیں اور توانائی بحرانوں پر قابو پایا ہے جنہوں نے سورج کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال یقینی بنایا۔ جہاں فجر کی نماز تو پڑھی جاتی ہے یا نہیں‘ لیکن لوگ اپنے کام وکاروبار کے لیے علی الصباح گھروں سے نکل پڑتے ہیں اور طلوعِ آفتاب کے ساتھ ہی اپنے کام میں مگن ہو جاتے ہیں، دن بھر خوب محنت کرتے ہیں اور دن کی روشنی کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ غروبِ آفتاب سے قبل وہ اپنے کام کاج سے چھٹی کر لیتے ہیں اور یوں انہیں مصنوعی روشنیوں، برقی قمقموں اور زیادہ طاقت والی سٹریٹ لائٹس کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ انہیں بجلی کے بغیر ہی دن کی روشنی میں کام کرنے کے لیے کم ازکم بارہ گھنٹے میسر ہوتے ہیں جو دنیا کے کسی بھی عام کاروبار کے لیے کافی ہیں کیونکہ دنیا کے تقریباً ہر خطے میں ہر شخص کے لیے کام کرنے کے اوقات عمومی طور پر آٹھ گھنٹے مقرر ہیں اور اگر کوئی فرد زائد کام کرے یعنی اوور ٹائم لگائے‘ تو بھی وہ بارہ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کرتا۔ اس حوالے سے ہمارے ہاں متعدد بار سورج کی روشنی کو بروئے کار لانے اور دکانیں اور کاروباری مراکز جلد بند کرنے کے فیصلے ہوئے، کئی بار ان پر عمل درآمد بھی شروع ہوا، مگر پھر آہستہ آہستہ ہم دوبارہ پرانی اور غلط ڈگر پر آ گئے۔
سابق حکومت نے توانائی کی بچت کے لیے متعدد بار دکانیں رات آٹھ بجے بند کرنے کا اعلان کیا، مگر ان اعلانات پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اس سے قبل بھی بجلی شارٹ فال کے فوری اور آسان حل کے لیے حکومت نے کئی بار رات کو 70 فیصد تک غیر ضروری لائٹنگ کی بچت کے لیے کاروباری مراکز جلد بند کرنے کے احکامات جاری کیے، کئی بار اس پالیسی پر کامیابی سے عملدرآمد بھی شروع ہوا لیکن پھر اس فیصلے پر عملدرآمد روک دیا گیا، حالانکہ یہ واحد پالیسی ہے جس سے نہ صرف بجلی کی بچت ہو سکتی ہے بلکہ قوم میں نظم و ضبط بھی پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ اس وقت ہماری 80 فیصد مارکیٹیں دوپہر سے پہلے کھلتی ہی نہیں اور پھر کم از کم نصف شب تک تمام بازار اور شاپنگ مالز کھلے رہتے ہیں جس سے بجلی کا لوڈ 70 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
پی ڈی ایم حکومت نے گزشتہ برس کے آخر میں ملک بھر میں توانائی بچت پروگرام کے تحت شادی ہالز رات دس بجے اور مارکیٹیں رات آٹھ بجے بند کرنے کا اعلان کیا تھا جبکہ توانائی کفایت شعاری کیلئے بھی پلان دیا گیا تھا مگر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ دنیا میں شاید پاکستان واحد ملک ہے جہاں رات دیر تک مارکیٹیں کھلی رہتی ہیں۔ ہمیں توانائی بحران حل کرنے کے لیے اپنے اوقاتِ کار میں نظم و ضبط پیدا کرنا ہو گا۔ حکومت نے بڑھتے ہوئے توانائی بحران پرقابو پانے کے لیے بعض اصلاحات کا بھی فیصلہ کیا تھا۔ سابق حکومت کے یہ دونوں فیصلے درپیش حالات اور ملکی ضروریات کے عین مطابق تھے لیکن کاش پی ڈی ایم حکومت ان فیصلوں پر عمل درآمد بھی کراتی، کیونکہ جیسے پہلے کہا کہ ہمارے ہاں بہت اچھی اچھی پالیسیاں تو بنتی رہی ہیں لیکن ان پر صحیح معنوں میں عملدرآمد نہیں ہو پاتا۔ حکومت نے دکانیں رات آٹھ بجے بند کرنے کا اعلان کیا تھا تو اس پر عمل درآمد بھی کرایا جاتا۔ کاش کہ ایسا ہو جاتا کہ رات آٹھ بجے میڈیکل سٹورز کے علاوہ تمام مارکیٹیں اور دکانیں بند ہو جائیں اور ریسٹورنٹس و شادی ہالز بھی دس بجے بند کر دیے جائیں۔ اس سے توانائی کی بچت ہو گی، شارٹ فال کم ہو گا اور ہم مہنگی بجلی کے استعمال سے بچ سکیں گے جبکہ اس سے قوم میں نظم و ضبط بھی پیدا ہو گا۔
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ آج پورے ملک خصوصاً بڑے شہروں میں کوئی کاروبار‘ کوئی مارکیٹ دوپہر بارہ بجے سے پہلے نہیں کھلتی اور پھر رات بارہ بجے سے پہلے بند بھی نہیں ہوتی۔ یہ دن کی روشنی کا صحیح استعمال نہ کرنے کا ہی خمیازہ ہے کہ ہمیں مغرب کے بعد 70 فیصد تک اضافی بجلی کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ سورج کی روشنی نہ ہونے کی وجہ سے برقی روشنیوں کا استعمال بھی زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں کمرشل بجلی کا استعمال گھریلو بجلی سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر توانائی بچت پالیسی پر عمل درآمد کرا لیا جاتا تو ہم تونائی بحران اور مہنگے درآمدی پیدواری ذرائع سے نکل سکتے تھے اور ہمارے پاس ضرورت سے زائد سستی بجلی بھی موجود ہو سکتی تھی۔
اس وقت راولپنڈی، اسلام آباد، لاہور، ملتان، فیصل آباد، بہاولپور، کوئٹہ، کراچی اور پشاور سمیت ملک بھر میں بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے کے خلاف احتجاج تیز ہوتا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بجلی کے نرخوں میں بے تحاشا اضافے اور عوامی احتجاج پر نوٹس لے رکھا ہے اور گزشتہ دو روز سے یوٹیلیٹی بلز میں کمی لانے کے حوالے سے مشاورت جاری ہے۔ اس حوالے سے آج (منگل کو) وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس ہو گا۔ شنید ہے کہ وزارتِ توانائی نے بجلی کی بچت اور بلوں سے متعلق تجاویز تیار کر لی ہیں‘ آج وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ان تجاویز کی منظوری لی جائے گی۔ جولائی کے بجلی قسطوں میں وصول کرنے کی تجویز پر بھی غور ہوگا۔ امید ہے کہ عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے سے متعلق حتمی فیصلہ آج شام تک سامنے آ جائے گا۔ اگر نگران حکومت کم ازکم توانائی بچت پلان پر عمل کرانے میں کامیاب ہو جائے اور قوم کو بجلی کی لوڈشیڈنگ اور مہنگے یوٹیلیٹی بلوں سے ہی نجات دلا دے تو موجودہ مہنگائی کی لہر میں عوام کے لیے یہ بہت بڑا ریلیف ہوگا۔