پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں قدرتی وسائل کی کمی نہیں، لیکن اس کے باوجود ہم قدرت کی دی ہوئی بے تحاشا منفرد نعمتوں سے آج تک کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ ہم صنعتی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کے بجائے خود کو ایک زرعی ملک قرار دے کر شادیانے بجاتے رہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ ہم نے ملک کو زرعی بنایا اور نہ ہی صنعتی۔ ہم نے آج تک پاک سرزمین کے نیچے دبے معدنی ذخائر سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا۔ ہمیں شروع سے یہی بتایا اور پڑھایا جاتا ہے کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں، ہمارے ملک کی بڑی آبادی کا پیشہ کھیتی باڑی ہے اور ہماری ستر فیصد افرادی قوت اور معیشت کا دار و مدار بالواسطہ زراعت سے ہے۔ ہم گندم، چاول، چینی اور دالوں سمیت مختلف اجناس کی پیداوار میں اس قدر خودکفیل ہیں کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد انہیں برآمد کر کے بھاری زرمبادلہ بھی کماتے ہیں، ہم دودھ اور گوشت کی پیداوار میں بھی ایک بلند مقام رکھتے ہیں، گھی اورخوردنی تیل بھی کسی دوسرے ملک سے درآمد کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہمارے پاس وافر مقدار میں پروڈکشن ہو رہی ہے، ہماری گندم کا آٹا زیادہ بہتر اور طاقتور سمجھا جاتا ہے، پاکستانی چینی کا معیار بہت بلند اور اچھا ہے۔ ہم بچپن سے یہ باتیں سنتے آ رہے ہیں بلکہ نصاب میں بھی کچھ ایسی ہی کہانیاں ہمیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ہمارے بچپن میں ٹریکٹر اور زرعی مشینری بہت محدود ہوا کرتی تھی، کسان خود کھیتوں میں ہل چلایا کرتے تھے، دیسی طریقے سے فصل بوئی جاتی، گندم کی کٹائی ہاتھوں اور درانتی سے کی جاتی تھی، پھر اس کی ''گَڈیاں‘‘ باندھی جاتیں، انہیں ایک جگہ جمع کیا جاتا اور کھلیان پر بیلوں کے ذریعے دیسی طریقے سے ہی دانہ اور بھوسہ الگ کیا جاتا۔ کسی کچے مکان میں گندم ڈھیر لگا کر ذخیرہ کر لی جاتی تھی اور بھوسہ کو سال بھر جانوروں کے چارے کے طور پر محفوظ کر لیا جاتا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب لوگ دکان سے سودا سلف لینے کے لیے گھر سے گندم یا چنے وغیرہ چادر میں باندھ کر لے جاتے تھے اور اس کے بدلے اشیائے ضروریہ خرید کر لے آتے تھے۔ اس زمانے میں مشہور تھا کہ بھوسہ بیچ کر گزارہ نہیں ہوتا۔
پھر ٹریکٹر عام ہونے لگے، فصل کی کاشت کے جدید طریقے رائج ہونے لگے، گندم کاٹنے کی جدید مشینیں آ گئیں، دانہ اور بھوسہ الگ کرنے کیلئے آٹومیٹک تھریشر کا رواج آ گیا۔ ہر کام کیلئے جدید مشینری آ گئی۔ لوگوں نے ہل چلانا چھوڑ دیا، پہلے کھلیان غیر آباد ہوئے اور پھر آہستہ آہستہ کھیتوں پر بھی ٹریکٹر پھیر دیا گیا۔ پہلے فصلوں کی آبیاری کیلئے کنویں کھود کر پانی نکالا جاتا تھا اور اس کیلئے دن بھر بیل کو کنویں کے گرد چکر کاٹنے پڑتے تھے مگر پھر پیٹر انجن، اس کے بعد جنریٹر اور بجلی نے کام آسان کر دیا۔ لوگوں نے چھوٹے چھوٹے ٹیوب ویل لگانا شروع کر دیے۔ بارانی زمینیں بھی نہری علاقے کی طرح کاشتکاروں کو فصلوں کی اچھی پیداوار دینے لگیں۔ امید کی ایک اچھی کرن نمودار ہوئی کہ اب چھوٹے کاشتکار بھی خوشحال ہوں گے، کھیت سونا اگلیں گے، ملک کے اندر اشیائے خور و نوش مزید سستی ہوں گی جبکہ زرعی برآمدات میں اضافہ ہوگا مگر یہ سب کچھ خواب ہی رہا۔ چھوٹے کاشتکاروں نے نہری علاقے کے بڑے زمینداروں کی نقل کرتے ہوئے گندم، مونگ پھلی اور دیگر فصلوں کی جگہ سبزیاں اگانے کے تجربات شروع کر دیے۔ یہ اچھا فیصلہ ہوتا اگر گندم اور دیگر روایتی فصلوں کی پیداوار کم نہ ہوتی اور ان کے ساتھ پھلوں کے باغات اور سبزیاں اگائی جاتیں۔ رہی سہی کسر نئے رہائشی منصوبوں نے پوری کر دی۔
بڑھتی آبادی کے پیشِ نظر زرعی اراضی پر رہائشی سکیمیں بننے لگیں۔ شہروں میں پراپرٹی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا اور بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر لوگوں نے نواحی علاقوں کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ زمینداروں کو اپنی زرعی زمینوں کے اچھے دام ملنے لگے، سو انہوں نے اپنی زمینیں فروخت کرنا شروع کر دیں۔ جہاں کبھی لہلہاتے کھیت ہوا کرتے تھے، وہاں رہائشی و کمرشل عمارتیں تعمیر ہونے لگیں۔ اس طرح شہری آبادیوں کے قرب و جوار میں واقع کھیت، کھلیان اور باغات وغیرہ رہائشی آبادیوں میں تبدیل ہونے لگے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو کاشتکار خوشحال زندگی بسر کرنے کے ساتھ ملک وقوم کیلئے غلہ فراہم کر رہا تھا‘ اب وہ زرعی اراضی بیچ کر وقتی طور پر تو امیر ہو گیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد اسے بھی دال اور آٹے کی فکر لاحق ہونے لگی۔ یوں بڑھتی آبادی اور لگی بندھی ڈگر کی وجہ سے ہماری زراعت زوال کا شکار ہوئی اور ہم خود کو زرعی ملک کہنے کے قابل بھی نہ رہے۔ زیر کاشت رقبے میں کمی ایک تلخ حقیقت ہے جس کا نقصان ہمارے شعبۂ زراعت کو ہوا۔ انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کی جانب سے وزیراعظم ہائوس کو بھیجی گئی ایک تازہ رپورٹ میں ہونے والے انکشافات نے سب کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ رپورٹ میں کرنسی اور آئل کے بعد چینی، کھاد اور گندم کی سمگلنگ کے بارے میں تفصیلات جاری کی گئی ہیں۔ گندم، کھاد اور چینی کے سمگلروں اور ان کے معاون سرکاری اہلکاروں کی تفصیلات بھی اس رپورٹ کا حصہ ہیں۔ گندم کی سمگلنگ میں 592 ذخیرہ اندوزں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق گندم سمگلنگ میں 26 بڑے سمگلر ملوث ہیں۔ گزشتہ سال آئی بی نے 417 رپورٹس متعلقہ محکموں کو بھجوائی تھیں، حساس ادارے کی نشاندہی پر 90 ہزار 147 میٹرک ٹن ذخیرہ شدہ اور سمگل ہونے والی گندم قبضے میں لی گئی۔ اس رپورٹ میں سمگلروں کی مدد کرنے والے 259 سرکاری اہلکاروں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ مختلف صوبوں میں تعینات یہ اہلکار سمگلروں اور ذخیرہ اندوزں کو معاونت فراہم کرتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ پنجاب میں 272، سندھ میں 244، خیبر پختونخوا میں 56، بلوچستان میں 15 اور اسلام آباد میں 5 اعلیٰ سرکاری اہلکار سمگلر مافیا کے ساتھی ہیں۔
یہ سمگلنگ ہی کے سبب ہے کہ زرعی ملک میں کبھی آٹے کا بحران پیدا ہو جاتا ہے تو کبھی چینی کا۔ آج کل 98 روپے فی کلوگرام سرکاری قیمت والی چینی کہیں 180 تو کہیں 210 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ مبینہ ملی بھگت اور سمگلنگ ہی ہے۔ مبینہ طور پر شوگر ملز مالکان نے ملک میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے قیمتیں آسمان پر پہنچا دی ہیں۔ چینی بحران کی ایک وجہ عدالت عالیہ میں زیر سماعت کیس اور حکم امتناع کو بتایا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کو حکم دیا کہ روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کر کے چینی کی قیمتوں کے کیس کا فیصلہ کرے۔ عدالتِ عظمیٰ میں دورانِ سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عدالت نے چینی کی قیمتوں کے تعین پر حکمِ امتناع دیا تھا، ہائیکورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل پر فیصلہ ہے کہ چینی کی قیمتوں کا تعین وفاق کا اختیار ہے، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ہائیکورٹ میں ابھی معاملہ زیرِ التوا ہے تو اس پر فیصلہ کیسے کر دیں؟ پہلے لاہور ہائیکورٹ کو اس معاملے پر فیصلہ کرنے دیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے یہ بھی بتایا کہ سرکاری طور پر چینی کی قیمت 98 روپے مقرر ہے جبکہ شوگر ملز مالکان 200 روپے میں فروخت کر رہے ہیں۔ شوگر ملز والے نہ پنجاب حکومت کی مقررہ قیمتوں کو تسلیم کرتے ہیں نہ وفاق کی۔ سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کو حکم دیا کہ آج (13 ستمبر) سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کر کے مذکورہ کیس کا فیصلہ کیا جائے۔ بلاشبہ عدالت عظمیٰ کا یہ حکم عوامی مفاد کے عین مطابق ہے اور اس سے عوام کو جلد ریلیف ملنے کی توقع ہے لیکن اصل مسئلہ وہی ہے جو حساس ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل سرکار سمگلروں، ذخیرہ اندوزوں اور منی لانڈروں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کر رہی ہے، جس کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع بھی ہو گئے ہیں اور امریکی ڈالر کی قیمت میں تقریباً 33 روپے تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کالی بھیڑوں کے خلاف بلاتخصیص کارروائی کی جائے اور کوئی بھی مگرمچھ اس کارروائی سے بچنا نہیں چاہیے جبکہ ایسا لائحہ عمل بھی مرتب کرنا چاہیے جس سے سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹ کے راستے ہمیشہ کے لیے بند کیے جا سکیں۔