انتخابات، سیاسی اقدار اور عوامی ووٹ!

دنیا کے ہر خطے، ہر مذہب، ہر رنگ ونسل اور زندگی کے ہر شعبے میں اچھے برے‘ ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح سیاست کے شعبے میں بھی لکیر کے دونوں اطراف والے افراد موجود ہیں۔ پاکستانی سیاست میں ایماندار، محب وطن، فرض شناس، اعلیٰ تعلیم یافتہ، بااخلاق اور بے لوث افراد کی کمی نہیں لیکن بدقسمتی سے اکثریت ایسے سیاستدانوں کی ہے جن کا مقصد اور منزل صرف اقتدار کا حصول ہے، انہیں ہر حال میں اور کسی بھی قیمت پر الیکشن جیت کر حکومت میں اپنے لیے کوئی اہم عہدہ چاہئے ہوتا ہے۔ ایسے سیاستدانوں کے نظریات اپنی موجودہ سیاسی جماعت کی مرکزی قیادت کی خوشنودی کے حصول کے گرد ہی گھومتے ہیں جبکہ ان کا منشور پولنگ ختم ہونے‘ اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے اور پھر کوئی وزارت یا حکومتی عہدہ ملنے کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔ آج کل ایسے سیاستدانوں کی اکثریت ہے جن کا کوئی نظریہ‘ کوئی منشور نہیں، کوئی سوچ یا الگ سیاسی رائے نہیں، انہیں صرف اور صرف ایک ایسی سیاسی پارٹی کا ٹکٹ چاہئے جو الیکشن میں ان کی کامیابی کی ضمانت بن سکے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں حصہ لینے اور منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچنے والے ایسے کئی سیاستدانوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ گزشتہ عام انتخابات میں ''بلے‘‘ کے انتخابی نشان پر الیکشن میں حصہ لینے والے درجنوں سیاستدان اب پی ٹی آئی کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ 2018ء میں پی ٹی آئی سب سے آئیڈیل پارٹی نظر آ رہی تھی لیکن موجود حالات میں یہ جماعت چونکہ مشکلات سے دوچار ہے اس لیے جن افراد نے اپنے مخصوص مفادات کیلئے پارٹی جوائن کی تھی‘ ان کی اکثریت اسے خیرباد کہہ چکی ہے۔ انہیں پارٹی اور منشور سے کوئی واسطہ نہ پہلے تھا نہ اب ہے۔ کچھ نے مختلف سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر لی جبکہ اکثریت نے نئے ناموں سے سیاسی جماعتیں بنا لیں۔ یہ صورتحال صرف پی ٹی آئی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت سبھی سیاسی پارٹیوں کو ان حالات کا سامنا رہا ہے اور اب بھی جن رہنمائوں کو آئندہ عام انتخابات میں اپنا مستقبل مخدوش نظر آ رہا ہے وہ سیاسی وفاداریاں بدلنے یا کوئی متبادل پلیٹ فارم تلاش کرنے میں سرگرداں ہیں۔ آج کل میڈیا میں ایک بار پھر پرانے سیاستدانوں کی نئی سیاسی پارٹی کے قیام کی خبریں زیرگردش ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ نئی سیاسی جماعت بنانا یا پارٹی تبدیل کرنا نہ تو کوئی برائی ہے اور نہ ہی غیر قانونی اقدام لیکن عوام کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ایسا کرنے والے کی نیت کیا واقعی عوام کی بہتر خدمت اور وطن عزیز کی ترقی وخوشحالی ہے یا صرف یہ ایوان ہائے اقتدار تک پہنچنے کی کوئی ترکیب ہے۔ اگر کوئی سیاستدان گزشتہ چند برس سے اپنی پارٹی کی پالیسیوں سے نالاں ہے اور عوامی مفاد میں پارٹی اور قیادت سے سرعام اختلاف کرتا چلا آ رہا ہے تو پھر اسے وفاداری تبدیل کرنے کا بالکل حق ہے لیکن ایسے سیاستدان جو اقتدار کے دوران بھرپور فائدے اٹھاتے ہیں اور تمام حکومتی مراعات انجوائے کرتے ہیں‘ اگر محض آئندہ الیکشن کو مدنظر رکھ کر پارٹی تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو پھر ایسے رہنمائوں کے بارے میں خود عوام کو بھی سوچنا چاہیے۔
ماضی کے تجربات سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ہمارے اکثریتی سیاستدانوں کواگر یہ یقین ہو جائے کہ وہ پارٹی ٹکٹ کے بغیر بھی الیکشن جیت سکتے ہیں تو پھر وہ اپنی انتخابی مہم میں اپنے سوا تمام لیڈروں کو چور، لٹیرا، نااہل اور سماج دشمن ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں۔ چونکہ ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے انہیں کسی ایسی سیاسی جماعت کا ٹکٹ درکار ہوتا ہے جس کی ان کے حلقے میں اکثریت ہو اس لیے مذکورہ سیاسی پارٹی کا سربراہ نہ صرف ان کا سیاسی قائد بن جاتا ہے بلکہ وہ ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے بھی ناگزیر قرار پاتاہے۔ ان کی نظر میں صرف وہی جماعت ملک کی خیر خواہ اور اس کا لیڈر ہی ملک کو تمام بحرانوں سے نکال سکتاہے اور مخالفین کا الیکشن جیتنا گویا وطنِ عزیز کے لیے کسی بڑے قومی بحران کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے ادوارِ حکومت میں وزارتوں کے مزے لوٹنے والے متعدد رہنمائوں نے پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالتے ہی وفاداریاں تبدیل کرنے میں بھلائی سمجھی تھی۔ اس وقت ان کی نظر میں پرویز مشرف کا اقتدار سنبھالنا اور صدر بننا پاکستان کی بقا کے لیے ضروری تھا اور اس کی وجہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کی کرپشن اور لوٹ مار تھی۔ ان کے خیال میں سابق وزرائے اعظم اور ان کے وہ ساتھی ہی کمزور معیشت کے ذمہ دار تھے جنہوں نے وفاداریاں تبدیل نہیں کی تھیں اور جو لوگ پرویز مشرف کے ساتھ مل گئے تھے، انہیں ملک کی ترقی و سلامتی عزیز تھی۔ پھر 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت معرضِ وجود میں آئی اور مشرف حکومت کا خاتمہ ہوا تو اکثریت ''تائب‘‘ ہوکر 'ایک زرداری ، سب پر بھاری‘‘ کا نعرہ لگانے لگی۔
2013ء کے جنرل الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے کامیابی حاصل کی اور میاں نواز شریف وزیراعظم بنے، پرویز مشرف کی لگ بھگ دو تہائی کابینہ نواز لیگ کی حکومت میں وزیر بن گئی۔ میرے محدود علم کے مطابق صرف چودھری برادران اور شیخ رشید احمد کے ناموں پر سرخ دائرہ لگایا گیا تھا، باقی تمام لوگوں کے لیے (ن) لیگ کے دروازے کھول دیے گئے تھے اور اکثریت نے دوبارہ (ن) لیگ جوائن کر لی تھی۔ 2018ء میں نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی اکثریت ''بلے باز‘‘ بن گئی اور تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہوئے پی ٹی آئی سرکار کا حصہ بن گئی۔ جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو پھر سب نے دائیں بائیں‘ بہت سی وفاداریاں تبدیل ہوتے دیکھیں۔ آج کل پھر کچھ ایسا ہی موسم چل رہا ہے۔
پارٹی تبدیل کرنا یا حکومت وقت کے ساتھ اتحاد یا الحاق ہرگز غلط روش نہیں مگر بات وہی ہے کہ پارٹی تبدیل کرنے والوں یا اتحاد کرنے والوں کے مقاصد کیا ہیں اور کن حالات میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے اندر بننے والے فارورڈ بلاک زیادہ تر نظریۂ ضرورت کے تحت وجود میں آتے ہیں یا اکثر حکومت اپنی سادہ اکثریت کو محفوظ بنانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے ایسے اراکین کو توڑ لیتی ہے جن کی اپنی پارٹی میں آواز دب چکی ہو یا جو اپنے حصے کا 'مال پانی‘ سمیٹ چکے ہوں اور انہیں مزید کی توقع باقی نہ رہے۔ ایسے میں وہ افراد قیادت سے گلے شکوے شروع کر دیتے ہیں اور آہستہ آہستہ جواز بنا کر مخالف جماعتوں کی گود میں جا بیٹھتے ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ جیسی اصطلاحات ایسے ہی پارلیمنٹیرنز کیلئے استعمال ہوتی ہیں جنہوں نے ذاتی مفادات یا مراعات کیلئے پارٹی کو چھوڑ کر مخالف کیمپ جوائن کیے ہوں یا پس پردہ رہ کر مخالفین کے ہاتھ مضبوط کیے ہوں۔
پاکستان کے قیام کو ساڑھے سات عشروں سے زائد عرصہ ہو چکا ہے اور ہم سیاسی و جمہوری لحاظ سے تاحال بہت پسماندہ ہیں۔ ہم اپنی درخشندہ سیاسی روایات اور اقدار کو فراموش کر چکے ہیں اورمحض ذاتی مفادات کے لیے چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے پر سنگین الزام تراشی کرتے ہیں۔ ماضی میں ہزار ہا سیاسی اختلافات کے باوجود سیاستدان ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے، ایک دوسرے کی ذاتی زندگی بارے منفی بات کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتے تھے، خوشی و غمی کی محفلوں میں سیاسی مخالفین کا بھرپور استقبال کیا جاتا تھا لیکن اب تو حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بے جا تنقید اور مخالفین کو گالیاں دینا ایک روایت بن چکی ہے۔ ہم اس وقت تک ترقی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکتے جب تک قومی معاملات پر اتفاقِ رائے پیدا نہیں کریں گے۔ ہمیں ایک قوم بننے کے لیے اپنی سیاسی اقدار کو مضبوط کرنا ہو گا اور اس کے لیے قومی سیاسی قیادت پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ سیاسی قائدین کو چاہئے کہ نوجوان نسل کی اخلاقی تربیت پر توجہ دیں اور سیاست کو دشمنی میں تبدیل ہونے سے بچائیں۔ اب دو نہیں تو چار‘ چھ ماہ میں عام انتخابات ہو ہی جانے ہیں لہٰذا عوام کو چاہئے کہ خوب سوچ سمجھ کر‘ میرٹ پر اپنے ووٹ کا استعمال کریں اور صرف موزوں امیدواروں کو ووٹ دیں تاکہ وطن عزیز صحیح معنوں میں ترقی کا سفر شروع کر سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں