وطن عزیز پاکستان شاید وہ واحد ملک ہے جس نے دہشت گردی کے خاتمے اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ ہماری بہادر سکیورٹی فورسز نے ایک نہیں‘ کئی بار دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی، امن دشمنوں کے ٹھکانے تباہ کیے اور معاشرے کی جڑوں میں سرایت کر چکے ان عناصر کا قلع قمع کیالیکن آج بھی بدقسمتی سے ہمسایہ ممالک کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ آج سب سے پہلے تو اس پر بات کرتے ہیں کہ دہشت گردی ہے کیا؟ دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف کرنا جو ہر لحاظ سے مکمل اور جامع ہو اور ہر موقع پر سو فیصد اتفاقِ رائے سے لاگو کی جا سکے‘ اگر ناممکن نہیں تو کم از کم انتہائی مشکل ضرور ہے۔ اگر ہر قسم کے پس منظر اور معاشرے کے حالات کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے تو پھر اس اصطلاح کی لغوی تشریح یوں ہو سکتی ہے کہ خوف اور ہراس پیدا کرکے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر ایسا طریقہ کار یا حکمت عملی اختیار کرنا جس سے قصوروار اور بے قصور کی تمیز کے بغیر (عام شہریوں سمیت) ہر ممکنہ ہدف کو ملوث کرتے ہوئے، وسیع پیمانے پر دہشت و تکلیف اور رعب و اضطراب پھیلایا جائے۔ اپنے مکروہ مقاصد کے لیے‘ خواہ وہ اغوا برائے تاوان کی صورت میں ہو، بیٹیوں، مائوں، بہنوں اور خواتین پر ظلم کی صورت میں ہو، قتل کی صورت میں ہو، دہشت پھیلا کر ناجائز طور پر مال کے حصول کی صورت میں ہو، بھتہ خوری کی صورت میں ہو، دہشت اور خوف ہراس پیدا کرکے کسی کی جائیداد ہتھیانے کی صورت میں ہو، طاقت و اختیار کے زعم میں شہریوں پر ظلم کرنے اور ان پر قافیۂ حیات تنگ کرنے کی صورت میں ہو، ایک طاقتور ریاست کا دوسری کمزور ریاست کے لوگوں پر ظلم و ستم کرنے اور انہیں قتل کرنے کی صورت میں ہو، سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے لوگوں کو استعمال کرنے کی صورت میں ہو، ماورائے عدالت جعلی مقابلوں میں لوگوں کو مارنے کی صورت میں ہو یا کسی بھی دوسری صورت میں‘ ایسا ہر عمل جس سے کسی بھی معاشرے میں فساد پھیلے یا ایسا عمل جس سے کسی بھی معاشرے کے بے گناہ، بے قصور اور پُرامن لوگوں میں خوف و ہراس پھیلے دہشت گردی کہلاتا ہے۔ مختصر طور پر دہشت گردی کی تعریف اس طرح کی جا سکتی ہے کہ وہ عمل جس سے کسی بھی معاشرے، ملک، شہر، گائوں، قصبہ، گلی، محلہ یا خاندان کے لوگوں یا کسی فرد میں خوف و ہراس اور دہشت پھیلے دہشت گردی کہلاتا ہے۔
دینِ اسلام ایک پُرامن مذہب ہے اور امن و محبت کا درس دیتا ہے، اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ نبی کریم خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن میں رحمۃ للعالمین یعنی تمام جہانوں کے لیے رحمت قرار دیا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جتنے بھی غزوات اور جنگیں لڑیں وہ سب اپنے دفاع میں لڑیں یا ان لوگوں کے خلاف‘ جو اسلام کے خلاف سازشیں کر رہے تھے، جنگ کی تیاریاں کر رہے تھے اور مسلمانوں پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ آپﷺ نے اسلام کو پُرامن طور پر تبلیغ کے ذریعے پھیلایا اور ہمیشہ امت کو امن کا درس دیا۔ کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جنگیں مسلط کیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کو جواب دینا پڑا۔ جس نے آپﷺ کے خلاف تلوار اٹھائی، اس کے خلاف آپﷺ کو بھی میدان میں اترنا پڑا ورنہ آپﷺ کی مکہ کی زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ آپﷺ نے ہمیشہ دلیل اور تبلیغ کا پُرامن راستہ اپنایا، یہی وجہ ہے کہ اسلام بہت تیزی سے پھیلا اور لوگ اسلام کی طرف مائل ہوئے۔ یہ بات بھی تاریخی طور پر ثابت شدہ ہے کہ آپﷺ کے تمام غزوات میں دونوں اطراف کے ہلاک شدگان کی تعداد کسی بھی طور ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ یہ اس مفروضے کا منطق اور دلائل کے ساتھ ردّ ہے جو کہ اسلام کے پھیلائو کو تلوار سے منسوب کرتا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب دہشت گردی اور تخریب کاری کی مذمت کرتے ہیں اور اس بات پر متفق ہیں کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ انہیں انسان کہنا بھی انسانیت کی تذلیل کے مترادف ہے۔ ماضی میں اس مکروہ فعل کو اسلام اور پاکستان سے جوڑنے کی مذموم کوششیں کی جاتی رہیں حالانکہ ہمارا دین ہمیشہ سے امن کا حامی و داعی رہا ہے اور اگر آج دنیا بھر میں ہوئے دہشت گردی کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ ان میں سب سے زیادہ نشانہ مسلمانوں کو ہی بنایا گیا۔
12ربیع الاول امتِ مسلمہ کے لیے انتہائی اہم دن ہے اس روز دنیا بھر کے مسلمان عید میلاد النبیﷺ کا جشن مناتے ہیں، آپﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور ہدیۂ نعت پیش کرتے ہیں۔ اس موقع پر بھی دہشت گردوں کی جانب سے وطنِ عزیز کو بزدلانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر‘ جمعہ کے روز بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ہونے والے خودکش دھماکے میں 60 سے زائد افراد جاں بحق اور لگ بھگ اتنے ہی زخمی ہو گئے۔ ترجمان سول ہسپتال کے مطابق مستونگ خودکش حملے میں زخمیوں کی مجموعی تعداد 66 ہے، جن میں سے 52 کو سول ہسپتال کوئٹہ لایا گیا۔ ان زخمیوں میں سے 25 زخمی اب بھی شہر کے مختلف ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔ ادھر ہنگو کی ایک مسجد میں بھی اسی روز‘ جمعہ کے خطبے کے دوران دھماکا ہوا، جس میں ایک پولیس اہلکار سمیت پانچ افراد جاں بحق اور 12 نمازی زخمی ہو گئے۔ دھماکا تھانہ دوآبہ کے اندر مسجد میں نمازِ جمعہ کے خطبے کے دوران ہوا۔ مقامی ایس ایچ او کے مطابق دھماکا جمعہ کے دوسرے خطبے کے دوران ہوا۔ دھماکے کے وقت مسجد کے اندر 30 سے 40 نمازی موجود تھے۔ دھماکے کی شدت سے مسجد کی چھت گر گئی جس کے ملبے تلے دب کر کئی افراد زخمی ہو گئے۔ اسی روز ہماری سکیورٹی فورسز نے افغانستان سے در اندازی کی ایک کوشش ناکام بنائی اور جھڑپ میں چار جوان شہید اور تین دہشت گرد مارے گئے۔ یہ صرف ایک دن پیش آنے والے اہم واقعات ہیں۔ اس طرح کی مذموم کارروائیاں اب بڑھتی جا رہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں امسال دہشت گردی کے واقعات میں اموات میں 19 فیصد اضافہ دیکھا گیا جبکہ نو ماہ میں 700 سے زائد افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔اگر صرف مذکورہ بالا تینوں واقعات کو دیکھیں تو ان میں نشانہ بننے والے تمام افراد بے قصور مسلمان ہیں۔ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان جشنِ ولادتِ مصطفیﷺ کے جلوس میں عاشقانِ رسول کو نشانہ نہیں بنا سکتا اور نہ ہی مسجد کے اندر نمازیوں کو جمعہ کے خطبے کے دوران شہید کر سکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر کے تانے بانے سرحد پار جا کر ملتے ہیں، لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ماضی میں اپنائی گئی تباہ کن پالیسیوں کا خمیازہ ہے جو آج ہم بھگت رہے ہیں۔ سابق حکومت کی جانب سے طالبان کے ساتھ کیے گئے نام نہاد ''امن معاہدے‘‘ کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں مسلح عسکریت پسندوں کو اپنے علاقوں میں واپسی کی اجازت دی گئی، اس معاہدے کے نتیجے میں دہشت گردوں کو ایک بار پھر اس خطے میں متحرک ہونے کا موقع ملا اور یوں انہوں نے اپنی کارروائیوں کا آغاز وہیں سے کیا جہاں سے 2016ء کے فوجی آپریشن کے سبب تعطل آیا تھا۔ بہت سے شرپسند تو بالائی سرحدی علاقوں میں واپس آ چکے ہیں لیکن ان کی قیادت اب بھی افغانستان میں موجود ہے جہاں وہ خود کو محفوظ تصور کرتی ہے۔ ہمارا ملک دہشت گردوں کے ساتھ نام نہاد امن معاہدے کی قیمت اپنے عوام کی جانوں کی صورت میں ادا کر رہا ہے۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سب سے زیادہ غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی افراد پاکستان میں موجود ہیں جن میں اکثریت افغان باشندوں کی ہے۔ قومی اداروں کو چاہئے کہ افغانوں سمیت جو بھی غیر ملکی افراد قانونی طور پر یہاں رہ رہے ہیں، ان کے علاوہ دیگر تمام غیر قانونی طور پر مقیم اور جعلی دستاویزات رکھنے اور بنانے والے افراد کے خلاف بلاتفریق آپریشن کیا جائے اور انہیں فوری طور پر اپنے اپنے ممالک واپس بھیجا جائے، یہی امن و امان کی بہتری اور معاشی بحالی کی جانب پہلا قدم ہو گا۔