افغان مہاجرین 1980ء کی دہائی میں پاکستان آنا شروع ہوئے تھے۔ ابتدا میں ان کی باقاعدہ رجسٹریشن کی جاتی اور انہیں مہاجر کیمپوں میں ٹھہرایا جاتا، جہاں خوراک وغیرہ کا بندوبست حکومت پاکستان نے اپنے ذمے لیا۔ افغانستان پر روس کا قبضہ ختم کرانے کے لیے امریکی بلاک کی جانب سے پاکستان کو خوب امریکی ڈالرز مل رہے تھے، شاید اسی لالچ میں افغانوں کی وطن واپسی کا بروقت سوچا ہی نہیں گیا۔ اگر سوویت یونین کے انخلا کے بعد مہاجرین اپنے ملک واپس چلے جاتے تو شاید پاکستان دہشت گردی، منشیات اور معیشت کی تباہی سمیت کثیر جہتی بحرانوں کا شکار نہ ہوتا لیکن اربابِ اختیار ڈالروں کی چمک دمک میں آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہے لہٰذا مہاجرین نے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہ کیمپوں سے نکل کر پاکستان کے کونے کونے میں پھیل گئے اور سونے پہ سہاگا‘ ہمارے بعض سویلین اداروں کے مبینہ کرپٹ اہلکار‘ جنہوں نے ان پناہ گزینوں کو جعلی شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات تیار کرکے تھما دیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں ایسے متعدد کیس سامنے آ چکے ہیں۔ کئی اہلکار گرفتار بھی ہو چکے ہیں۔ اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سب سے پہلے ان غیر ملکیوں کے شناختی کارڈز بلاک کیے جائیں گے، اگر واقعی ایسا ہوا تو پاکستان اپنے سر سے بہت بڑا بوجھ اتار نے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر میں یہ قانون ہے کہ پناہ گزینوں کو کیمپوں میں رکھا جاتا ہے، انہیں مخصوص تعداد اور خصوصی شرائط کیساتھ ایک علاقے تک محدود کر دیا جاتا ہے مگر پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں افغان پناہ گزینوں کو پورے ملک میں بلا روک ٹوک آنے جانے اور کاروبار کرنے کی کھلی اجازت دے دی گئی جس کی آڑ میں وہ اسلحہ اور منشیات کی سمگلنگ سے بھتہ خوری اور دہشت گردی تک ہر طرح کی سماج دشمن کارروائیوں میں ملوث ہو گئے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر صرف غیر قانونی تارکین وطن کو ہی فوری طور پر واپس اپنے اپنے ملک بھیج دیا جائے تو پاکستان کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں کیونکہ دہشت گردی، تخریب کاری، اسلحہ، منشیات، اغوا برائے تاوان، انسانی سمگلنگ، گاڑیوں کی چوری، منی لانڈرنگ، قتل وغارت گری اور کرنسی کی سمگلنگ سمیت کئی سنگین جرائم میں 90 فیصد تک یہی غیر ملکی ملوث ہیں۔ ایک طرف یہ افراد تمام مسائل کی جڑ ہیں تو دوسری طرف بلیک منی اور ناجائز کمائی سے کھربوں روپے کی جائیدادوں کے مالک بن چکے ہیں۔ جعلی شناختی کارڈ کے حصول کے بعد افغان پناہ گزین یہاں پوری پوری مارکیٹیں، پلازے، فارم ہائوسز خرید چکے اور بڑے بڑے کاروباروں کے مالک بن چکے ہیں۔ دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان کی معیشت کا سارا دار و مدار پاکستان پر ہے، اسے روزانہ تقریباً دس سے پندرہ ملین ڈالرز کی ضرورت ہوتی ہے جس کا نصف پاکستان میں مقیم افراد منی لانڈرنگ کے ذریعے پورا کرتے ہیں۔ یہ مہاجرین افغانستان سے کوئلہ، میوہ جات اور دوسری اشیا افغان کرنسی میں خریدتے ہیں اور پاکستان لا کر منافع سمیت پاکستانی روپوں میں فروخت کر دیتے ہیں۔ افغانوں کو پاکستانی روپیہ اپنے ملک میں لے جانے کی اجازت نہیں ہے؛ چنانچہ وہ منی چینجرز کے ذریعے روپوں کو ڈالروں میں تبدیل کراتے ہیں اور ڈالر افغانستان سمگل کر دیتے ہیں۔ ڈالر کی یہی غیر قانونی ترسیل پاکستان میں امریکی ڈالرکے مہنگا ہونے کی بڑی وجہ ہے جس کا دبائو پاکستانی روپے پر پڑتا ہے اور ہماری کرنسی کی قدر میں کمی ہو رہی ہے جبکہ افغان کرنسی مستحکم ہو رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے غیر قانونی مقیم افراد کو نکالنے کے اعلان کے بعد غیر ملکیوں کے انخلا کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ پاکستان میں غیر قانونی مقیم دو ہزار افغانوں کو بغیر ویزا اور کسی قسم کی سفری دستاویزات کے بغیر افغانستان واپس جانے کی اجازت دی گئی۔ طورخم سرحد پر پھنسے ان افغان شہریوں کے پاس سفری دستاویزات اور پاکستان کا ویزا موجود نہیں تھا اور یہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں قیام پذیر تھے۔ واضح رہے کہ ایران سے بھی 90 ہزار افغان شہری موسم بہار سے اب تک واپس اپنے ملک جا چکے ہیں۔ ادھر 30 افغان خاندانوں کو لے کر 16 ٹرک طورخم سرحد پر پہنچ گئے اور قانونی کارروائی کے بعد ان 350 افراد کو بھی افغانستان جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔ دریں اثنا افغان کمشنریٹ خیبر پختونخوا کے مطابق صوبے میں رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی تعداد 10 لاکھ ہے۔ 7 لاکھ 75 ہزار افغان غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوئے، ان میں 3 لاکھ سے زیادہ وہ ہیں جو طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان آئے۔ بلوچستان میں مقیم افغان باشندوں کی تعداد ساڑھے 8 لاکھ کے لگ بھگ بتائی جا رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان میں سے اڑھائی لاکھ غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ اگست 2021ء میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد 6 لاکھ سے زیادہ نئے افعان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے۔ پہلے افغان حکومت کو غیر ملکی امداد مل رہی تھی مگر اب ترقی یا فتہ مغربی ممالک اور جاپان و جنوبی کوریا وغیرہ طالبان حکومت کی مالی معاونت کر نے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یہ ممالک پاکستان میں پناہ گزینوں کی امدادی کوششوں میں تعاون کرنے سے بھی گریزاں ہیں۔ واضح رہے کہ افغانستان سے بیشتر لوگ بلوچستان یا طورخم باڈر سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ طورخم سے تقریباً پانچ ہزار افراد روزانہ افغانستان سے پاکستان داخل ہوتے ہیں جن میں سے تقریباً دو ہزار افراد یہیں پر رہ جاتے ہیں۔ ان کے بارے میں پتا نہیں چلتا کہ وہ کہاں قیام کرتے ہیں؟ واضح رہے کہ افغانستان سے آنے والوں کی ایک بڑی تعداد میڈیکل گرائونڈ پر پاکستان آتی ہے اور بیشتر افراد کے پاس جعلی ویزا ہوتا ہے۔ پاکستان میں داخل ہونے کے بعد یہ لوگ واپس جاتے ہیں یا نہیں‘ اس حوالے سے درست اعداد و شمار کا خاصا فقدان ہے۔ مختلف سیاسی آرا کے باوجود پاکستانیوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ اس وقت پاکستان توانائی، معیشت اوردیگر کئی سنگین بحرانوں کا شکار ہے جبکہ افغانستان میں حالات موزوں ہیں لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ افغان مہاجرین کو واپس ان کے وطن بھیجا جائے لیکن سب سے پہلے غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو نکالنا ہو گا کیونکہ زیادہ تر یہی مختلف جرائم میں ملوث ہیں۔ اگر پہلے مرحلے میں پاکستان تمام غیر قانونی غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے مہنگائی و بیروزگاری میں نمایاں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت تمام بڑے شہروں میں مکانات کے کرائے کم ہوں گے۔ چوری، ڈکیتی اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں تھم جائیں گی، سب سے بڑھ کر‘ دہشت گردی کی حالیہ لہر میں کمی آئے گی اور امن و امان کی صورتحال مزید بہتر ہو گی۔ مہنگائی میں کمی آئے گی تو معیشت کا پہیہ چلے گا اور پاکستان دوبارہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے گا۔
خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان غیر قانونی مقیم شہریوں کی واپسی پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اس معاملے پر افغان سفارتخانے کے حکام نے پولیس اور انتظامیہ سے اہم ملاقات کی جس میں افغان سفارتخانے کو غیر قانونی مقیم افغانوں کی واپسی کے ٹی او آر سے آگاہ کیا گیا جس پر افغان سفارتخانے کی جانب سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔ پاکستانی حکام نے بخوشی واپس جانے والوں کو سہولت دینے کا بھی اعلان کیاہے۔ جن افغان شہریوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان کا ڈیٹا افغان سفارتخانے کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔ کسی بھی سیاسی حکومت کے لیے ایسے فیصلے کرنا مشکل ہوتا ہے حالانکہ عوام سیاسی جماعتوں کو مینڈیٹ اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے دیتے ہیں لیکن حکومتیں مختلف قسم کی مصلحتوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔ ویسے بھی یہ کام اہم قومی اداروں کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔ اس وقت چونکہ ملک میں نگران حکومت برسراقتدار ہے جس کیلئے مشکل فیصلے کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں جبکہ اداروں کا بھی مکمل تعاون اسے حاصل ہے لہٰذا غیرقانونی مقیم افراد کی واپسی کا جو عمل شروع ہو چکا ہے‘ اسے مزید تیز کرنے اور منطقی انجام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔