قیامِ پاکستان کا مقصد ایک ایسے پُرامن اورخوش حال خطے کا حصول تھا جہاں برصغیر کے مسلمان مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ پُرسکون زندگی گزار سکیں اور اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات کے تحت بسر کر سکیں جبکہ سبز ہلالی پرچم میں سفید حصہ اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان میں رہنے والی تمام اقلیتوں کو بھی نہ صرف مکمل مذہبی آزادی بلکہ تمام شہری حقوق بھی یکساں بنیادوں پر حاصل ہوں گے۔ ہمارا آئین تمام اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت کا بھی اسی طرح ضامن ہے جس طرح وطن عزیز میں بسنے والے مسلمانوں کا۔ پاکستانی بنیادی طور پر امن پسند ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دشمن ہماری امن پسندی کو ہماری کمزوری سمجھ لے۔ پاکستان نے کبھی بھی جنگ میں پہل نہیں کی اور ہمارے بزدل دشمن یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری بہادر افواج وطن کی سرحدوں کا دفاع کرنا اچھی طرح جانتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 6 ستمبر 1965ء کے بعد ہمارے روایتی دشمن بھارت کو پاکستان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی جرأت نہیں ہوئی؛ تاہم فتنہ پرور دشمن اپنی خصلت کے سبب اب بھی باز نہیں آیا اور ہر وقت دہشت گردی کی بزدلانہ کارروائیوں سے پاکستان کے امن و امان کو متاثر کرنے کی سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔
ہمارے دشمن کو 27 فروری 2019ء کا دن کبھی نہیں بھولے گا جب بزدلوں نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی مگر پاکستان ایئرفورس نے پاک سرزمین کی طرف پیش قدمی کرنے والے دونوں بھارتی طیارے مار گرائے اور ایک طیارے کے زندہ بچ جانے والے پائلٹ ابھینندن کو گرفتار بھی کر لیا‘ جسے حکومت نے جذبۂ خیر سگالی اور امن کے فروغ کے تحت اگلے ہی روز رہا بھی کر دیا۔ صرف یہی نہیں‘ اس سے قبل کارگل جنگ میں بھی ایک بھارتی پائلٹ گروپ کیپٹن نچکیتا کو گرفتار اور پھر جذبۂ خیر سگالی کے تحت رہا کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ ہے کہ منگل 26 مئی‘ 1999ء کا‘ جب کنٹرول لائن پر کارگل و بٹالہ سیکٹر پر مقبوضہ کشمیر کی چند اہم چوکیوں پر پاکستان نے قبضہ کر لیا تھا۔ آرٹلری و انفنٹری کے بھرپور استعمال کے باوجود ناکامی کا منہ دیکھنے پر بھارتی حکام نے فضائیہ کی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ دن کے گیارہ بجے پاکستانی میڈیا نے خبر بریک کی کہ پاکستان نے دو بھارتی جنگی طیارے مار گرائے ہیں اور ایک طیارے کا پائلٹ ہلاک ہو گیا ہے جبکہ دوسرے طیارے کا پائلٹ زندہ سلامت گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر بھارت نے اس خبر کو جھوٹ قرار دے کر مسترد کر دیا مگر بھارت کے لیے اس جھوٹ پر تادیر قائم رہنا ممکن نہیں تھا کیونکہ ایک تو پاکستان نے بھارتی پائلٹ کی زندہ سلامت اپنے پاس موجودگی کے شواہد پیش کر دیے تھے، دوم‘ آزاد کشمیر میں گرنے والے بھارتی طیارے کے ملبے کو بھی فوری طور پر منظر عام پر لانے کا اعلان کر دیا گیا۔ اس کے بعد نئی دہلی میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے کابینہ کی ہنگامی میٹنگ طلب کی اور عالمی سطح پر شرمندگی سے بچنے کے لیے طیاروں کی تباہی کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ میٹنگ ختم ہوئی تو بھارتی وزیر دفاع جارج فریننڈس نے وزیراعظم کے مشیر برائے دفاع برجیش مشرا کے ہمراہ پریس کانفرنس میں مؤقف اپنایا کہ بھارتی فضائیہ کے دونوں طیارے بھارت کی حدود میں پرواز کر رہے تھے مگر انہیں پاک فوج نے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ ایک طیارہ اس کی زد میں آنے کے بعد تیز رفتاری کی وجہ سے پاکستان کے زیر قبضہ علاقے میں جا گرا جبکہ دوسرا طیارہ فنی خرابی کی بدولت بھارت کی اپنی حدود میں گر کر تباہ ہوا جس کے پائلٹ کو بچا لیا گیا ہے۔ اس کے بعد پاکستان کی طرف سے تباہ شدہ بھارتی MIG-27 طیارے کے ملبے کی تصاویر اور وڈیو فوٹیج دنیا بھر کے میڈیا کو فراہم کر دی گئی اور بتایا گیا کہ پاکستان کے ہاتھوں تباہ ہونے والے دونوں بھارتی طیارے MIG-27 تھے۔ ساتھ ہی ایک بھارتی جنگی ہیلی کاپٹر کے پاک فوج کے ہاتھوں مار ے جانے کی خبر بھی نشر ہوئی۔ اس حوالے سے جب نئی دہلی میں میڈیا نے بھارتی وزارتِ دفاع سے رابطہ کیا تو بھارتی فضائیہ کے نمائندے ایئر کموڈور سبھاش بھوجوانی نے جواب دیا کہ بھارتی ایئر فورس کے طیارے دشمن پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں‘ موصوف نے اس خبر کی بھی تردید کی کہ پاکستان کے پاس موجودہ طیارہ شکن میزائل سسٹم کی موجودگی کی بدولت بھارت کے پائلٹ مزید خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔ جس وقت بھارت میں ایئر کموڈور سبھاش میڈیا والوں سے گفتگو کر رہے تھے‘ اسی وقت اطلاع آئی کہ پاکستان نے جذبۂ خیر سگالی کے تحت گرفتار بھارتی پائلٹ نچکیتا کو اسلام آباد میں بھارتی سفارت خانے کے حوالے کر دیا ہے۔
مذکورہ واقعات یوں تو پاکستان کی دفاعی تاریخ کے سنہری اوراق میں محفوظ ہیں لیکن یہاں انہیں بیان کرنے کا مقصد اپنی نوجوان نسل کو یہ بتانا اور باور کرانا ہے کہ الحمدللہ ہماری بہادر افواج ہر لمحہ چوکس اور مستعد ہیں اور اندرونِ ملک اور سرحدوں پر پاکستان دشمنوں کی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔ گزشتہ کالم میں بھی کہا تھا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں پاکستان نے دی ہیں اور ہماری بہادر فورسز نے وطن عزیز سے دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرکے امن و امان بحال کیا تھا جس کے بعد ہماری معیشت مستحکم ہوئی اور انفراسٹرکچر کے لحاظ سے بھی ترقی ہوئی۔ سب سے بڑھ کر سی پیک‘ جو خطے میں گیم چینجر منصوبے کی حیثیت رکھتا ہے‘ اس کا آغاز ہوا مگر محسوس ہوتا ہے کہ پھلتا پھولتا پاکستان کچھ دشمنوں سے ہضم نہیں ہو رہا اور یہی وجہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے بزدلانہ حملوں سے ہمیں کمزور کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں اور گزشتہ تین‘ چار برس کے دوران دہشت گردی سے معیشت کو خاصا نقصان پہنچایا گیا ہے۔
اب پاکستان کے اربابِ بست و کشاد نے معاشی استحکام کے حوالے سے کئی اہم فیصلے کیے ہیں جن میں انسدادِ سمگلنگ اور غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو اپنے اپنے ملک واپس بھجوانے کیلئے کریک ڈائون کا آغاز قابلِ ذکر ہیں۔ ان اقدامات کے بعد ایک بار پھر پاکستان کے حوالے سے اچھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ گزشتہ روز کاروباری ہفتے کے دوسرے دن کاروبار کے آغاز پر پاکستان سٹاک مارکیٹ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی اور 450 پوائنٹس اضافے کے بعد 100 انڈیکس 54 ہزار 267 پوائنٹس کی سطح پر ٹریڈ کر نے لگا۔ قبل ازیں کاروباری ہفتے کے پہلے روز پاکستان سٹاک ایکسچینج میں 100 انڈیکس 737 پوائنٹس اضافے سے 53 ہزار 860 پوائنٹس پر بند ہوا۔ ہمارے دشمن جانتے ہیں کہ اگر پاکستان اپنے فیصلوں پر سو فیصد عملدرآمد کرانے میں کامیاب ہو گیا تو ایک بار پھر معاشی بحالی و ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ ادھر عام انتخابات کا اعلان بھی دشمنوں کو کھٹک رہا ہے کیونکہ سیاسی استحکام معاشی ترقی کی ضمانت بن سکتا ہے اسی لیے دشمنوں نے پھر سے ملک کے امن کو نشانہ بنانے کی سازشیں شروع کر دی ہیں اور دہشت گردی کی نئی لہر انہی سازشوں کا حصہ ہے۔ لیکن ہماری بہادر افواج آج بھی چاق و چوبند ہیں اور ان بزدلانہ حملوں کو ناکام بنا رہی ہیں۔ ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب وطن عزیز سے تمام غیر قانونی مقیم تارکین وطن واپس چلے جائیں گے، سمگلنگ کی مکمل روک تھام سے پاکستانی کرنسی کی قدر مستحکم ہو گی اور سیاسی استحکام کے باعث ملک میں امن اور خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔ ان حالات میں احمد ندیم قاسمی کی وہ دعائیہ نظم یاد آتی ہے اور ہر پاکستانی کے دل کی آواز بن جاتی ہے:
خدا کرے میری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو