زراعت:معیشت کی ریڑھ کی ہڈی؟

صبح سویرے ایک سینئر بیورو کریٹ دوست کا فون آ گیا۔ سلام دعا کے بعد حال احوال کی بات چلی تو کہنے لگے کہ مہنگائی و بیروزگاری کے ذمہ دار ہم خود ہیں، وہ اشیائے ضروریہ جو پہلے ہمارے گھروں میں سال کے اختتام پر بھی وافر مقدار میں پڑی ہوتی تھیں‘ اب ضرورت کے مطابق بھی میسر نہیں ہو پاتیں۔ بچپن میں گندم، دودھ، گھی، دالیں، سبزیاں اور پھل وغیرہ ہمارے اپنے گھر کے ہوتے تھے بلکہ ہمارے گائوں کے لوگ تو دکان سے سودا سلف لینے کے لیے نقد پیسوں کے بجائے گندم یا مونگ پھلی ہی لے کر جاتے دکاندار کو دیتے تھے لیکن اب قریب ایک دہائی ہو چلی ہے کہ گائوں سے گندم آنا بند ہو چکی ہے‘ ہم خالص دودھ کو ترس گئے ہیں۔ سبزیاں مفت ملنا تو دور کی بات‘ تازہ بھی نہیں ملتیں بلکہ اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ملکی سطح پر بھی لہسن اور ادرک چین سے منگوائے جا رہے ہیں، ٹماٹر ایران سے آ رہا ہے، پیاز اور کیلے بھارت سے براستہ دبئی درآمد کیے جارہے ہیں، دالیں کینیڈا اور افریقہ سے آ رہی ہیں اور پاکستان کو گندم روس دے رہا ہے۔ اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ زراعت ہماری ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
بات تو ان کی سو فیصد سچ ہے کہ اب یہ محض کہنے کی حد تک ہی رہ گیا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ یہ باتیں پرانی ہو چکی ہیں کہ ہمارے ملک کی بڑی آبادی کا پیشہ کھیتی باڑی سے وابستہ ہے اور ہماری ستر فیصد معیشت کا دار و مدار بالواسطہ اور بلاواسطہ زراعت پر ہے‘ ہم گندم، چاول، چینی اور دالوں سمیت مختلف اجناس کی پیداوار میں اس قدر خود کفیل ہیں کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد انہیں برآمد کرکے بھاری زرمبادلہ بھی کما سکتے ہیں‘ ہم دودھ اور گوشت کی پیداوار میں بھی ایک بلند مقام رکھتے ہیں‘ گھی اور خوردنی تیل بھی کسی دوسرے ملک سے درآمد کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں بلکہ ہمارے ہاں وافر مقدار میں ان کی پروڈکشن ہو رہی ہے‘ ہماری گندم کا آٹا خوراک کے طور پر زیادہ بہتر اورطاقتور سمجھا جاتا ہے‘ پاکستانی چینی کا معیار اور مٹھاس زیادہ بہتر ہیں۔ ہم بچپن سے یہی باتیں سنتے چلے آ رہے ہیں بلکہ کتابوں میں بھی کچھ ایسی ہی باتیں پڑھائی جاتی ہیں مگر اب زمینی حقیقت کچھ اور ہے۔
ہمارے بچپن میں ٹریکٹر اور جدید زرعی مشینری بہت محدود ہوا کرتی تھی، کسان خود ہی کھیتوں میں ہل چلایا کرتے تھے، دیسی طریقے سے فصل بوئی جاتی تھی، گندم کی کٹائی ہاتھوں اور درانتی سے کی جاتی تھی اور پھر اس کی ''گَڈیاں‘‘ باندھی جاتی تھیں، انہیں ایک جگہ جمع کیا جاتا اور کھلیان پر بیلوں کے ذریعے دیسی طریقے سے ہی دانہ اور بھوسہ الگ کیا جاتا۔ کسی کچے مکان میں ڈھیر لگا کر گندم ذخیرہ کر لی جاتی اور بھوسہ کو سال بھر جانوروں کے چارے کے طور پر محفوظ کر لیا جاتا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب لوگ دکان سے سودا سلف لینے کے لیے گھر سے نکلتے تو پیسوں کے بجائے گندم یا چنے وغیرہ کے دانے کسی چادر میں باندھ کر لے جاتے اور اس کے بدلے اشیائے ضروریہ خرید کر لے آتے۔ اس زمانے میں مشہور تھا کہ بھوسہ بیچ کر گزارہ نہیں ہوتا۔ پھر ٹریکٹرز عام ہونے لگے، فصل کی کاشت کے جدید طریقے رائج ہونے لگے، گندم کاٹنے کی جدید مشینیں آ گئیں، دانہ اور بھوسہ الگ کرنے کے لیے آٹومیٹک تھریشر کا رواج آ گیا۔ مونگ پھلی کی کاشت سے لے کر تھریشنگ تک کے لیے جدید مشینری آ گئی۔ لوگوں نے خود ہل چلانا چھوڑ دیا۔ پہلے کھلیان غیر آباد ہوئے اور پھر آہستہ آہستہ ان پر ٹریکٹر پھیر دیا گیا۔ پہلے فصلوں کی آبیاری کے لیے کنووں سے پانی نکالا جاتا تھا اوراس کے لیے دن بھر بیلوں کو کنویں کا طواف کرنا پڑتا تھا، پھر پیٹر انجن، اس کے بعد جنریٹر، بجلی اور سولر نے کام آسان کر دیا۔ لوگوں نے چھوٹے چھوٹے ٹیوب ویل لگانا شروع کر دیے اور بارانی زمینیں بھی نہری علاقوں کی طرح کاشتکاروں کو فصلوں کی اچھی پیداوار دینے لگیں۔ اس سے امید کی کرن پیدا ہوئی کہ اب چھوٹے کاشتکار بھی خوشحال ہوں گے، کھیت سونا اُگلیں گے، ملک کے اندر اشیائے خور و نوش سستی ہوں گی جبکہ زرعی برآمدات میں اضافہ ہو گا مگر یہ سب کچھ خواب ہی رہا۔ چھوٹے کاشتکاروں نے نہری علاقوں کے بڑے زمینداروں کی نقل کرتے ہوئے گندم، مونگ پھلی اوردیگر فصلوں کی جگہ سبزیاں اگانے کے تجربات شروع کر دیے۔ یقینا یہ سب خوش آئند ہوتا اگر گندم اور دیگر روایتی فصلوں کی پیداوار کم نہ ہوتی اور ان کے ساتھ ساتھ سبزیوں اور پھلوں کے باغات لگائے جاتے۔ رہی سہی کسر ہائوسنگ سوسائٹیوں نے پوری کر دی۔ زرعی اراضی پر رہائشی سکیمیں بننے لگیں، بڑھتی آبادی کے سبب شہروں میں پراپرٹی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا تو لوگوں نے قدرے دور نئی رہائشی سکیموں کا رخ کرنا شروع کر دیا۔ زمینداروں کو اچھے دام ملے تو انہوں نے اپنی زرعی زمینیں دھڑا دھڑ فروخت کرنا شروع کر دیں۔ جہاں کبھی لہلہاتے کھیت ہوا کرتے تھے‘ وہاں رہائشی و کمرشل عمارتیں وجو د میں آ گئیں۔ اس طرح شہری آبادیوں کے قریب کھیت کھلیان رہائشی آبادیوں میں بدلنے لگے جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے شہروں کو جو تازہ دودھ اور سبزی میسر آ جاتی تھی‘ وہ سلسلہ ختم ہو گیا جبکہ جو کاشتکار خوشحال زندگی بسر کرنے کے ساتھ ملک وقوم کو غلہ فراہم کر رہا تھا‘ وہ اپنی زرعی اراضی بیچ کر وقتی طور پر امیر تو ہو گیا لیکن پھر چند سال بعد اسے خود بھی دال اور آٹے کی فکر لاحق ہونے لگی اور آخرکار وہ بھی نوکری تلاش کرنے پر مجبور ہو گیا، یوں ہماری زراعت زوال کا شکار ہوئی اور ہم خود کو زرعی ملک کہنے کے قابل بھی نہ رہے۔
ایک عام شہری یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کبھی خود کو زرعی ملک کہنے والے پاکستان کی زراعت آج کہاں کھڑی ہے اور ہم آٹا‘ دال‘ چینی سمیت اشیائے خور و نوش اتنی بڑی مقدار میں درآمد کرنے پر کیوں مجبور ہیں؟ حکومت کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ سب سے پہلے تو زرعی اراضی کو رہائشی منصوبوں کی نذر کرنے پر فوری پابندی عائد کی جائے۔ کالا باغ اگر نہیں بنتا تو ملک میں دیگر چھوٹے بڑے ڈیم تو بنائے جائیں اور صنعتی شعبے کی طرح زراعت میں بھی کاشتکاروں کے لیے پُرکشش مراعات کا اعلان کیاجائے تاکہ شعبہ زراعت کی بحالی ممکن ہو سکے اور ہم ایک بار پھر گندم، مونگ پھلی، چنے، دالیں، چاول اور چینی کی پیداوار میں خود کفالت کی سطح پر پہنچ سکیں بلکہ اپنی برآمدات میں بھی اضافہ کر سکیں اور مہنگے داموں درآمد ہونے والی ناقص اشیائے خور و نوش کی جگہ صحت بخش دیسی خوراک میسر آ سکے۔
پاکستان اس وقت مختلف النوع سنگین بحرانوں کا شکار ہے اور معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ بیرونی قرضوں کے باعث ہم ایک ایسے گرداب میں پھنس چکے ہیں کہ اب ملک کے اندر پیدا ہونے والی اجناس کے نرخ بھی غیروں کی مرضی و مشاورت سے طے کیے جاتے ہیں۔ موجودہ معاشی صورتحال میں بظاہر آئی ایم ایف کے شکنجے سے نکلنا اتنا آسان نہیں لیکن حکمران اور ماہرین اقتصادیات اگر متبادل ذرائع کو فروغ دیں تو یہ اتنا مشکل کام بھی نہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں اپنی زراعت کے شعبے کو ترقی دینا ہو گی اور اس کے لیے زیرِکاشت رقبے میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کو فروغ دینا ہو گا۔ حکومت زرعی درآمدات پر ٹیکس کی شرح کم کرے اور برآمدات بڑھانے کے لیے خصوصی مراعات دی جائیں تاکہ کسان دوبارہ اس جانب راغب ہو سکیں۔ پاکستان میں تقریباً 50 ملین سے زائد مویشی ہیں جبکہ 40 ملین سے زائد دودھ دینے والی بھینسیں موجود ہیں۔ تھوڑی سے توجہ کے ساتھ ان کی پیداوار میں نمایاں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے گزشتہ برس 68.9 ملین ڈالر کی ڈیری مصنوعات، انڈے اور شہد کی درآمدات کیں‘ جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔ وطن عزیز میں بیشمار سمندری و ماہی گیری وسائل موجود ہیں، لیکن گزشتہ دو برس میں کئی ملین ڈالرز کی مچھلی اور سمندری غذائی اجناس درآمد کی گئیں۔ ہماری معیشت پہلے ہی تباہی سے دوچار ہے اور ملکی کرنسی کی قدر مسلسل زوال پذیر ہے‘ ایسے میں اس قسم کی درآمدات ملکی معیشت کو خاصا نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اگر ہم اپنے شعبہ زراعت پر بھرپور توجہ دیں اور ملکی اشیا کو بیرونِ ملک سے آنے والی اشیا پر فوقیت دیں تو درآمدی بل کو کافی حد تک گھٹا کر تجارتی خسارے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں