کم عمر ڈرائیور‘ نیم حکیموں سے زیادہ خطرۂ جان

بدقسمتی سے پاکستان میں کم عمر ڈرائیونگ کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے اور یہ نو عمر ڈرائیور نیم حکیموں سے زیادہ خطرۂ جان ہیں۔ کم عمری کی ڈرائیونگ کا ہر کوئی شاہد ہے۔ ہم روزانہ اپنے اردگرد نو عمر لڑکوں کو موٹر سائیکل اور گاڑیاں دوڑاتے ہوئے دیکھتے ہیں اور اسی وجہ سے ٹریفک حادثات کی شرح بھی بڑھ گئی ہے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے اور بڑے ذمہ دار بلکہ مجرم وہ والدین ہیں جو اپنے نابالغ اور کم عمر بچوں کو بڑے فخر سے ڈرائیونگ سکھاتے ہیں۔ بہت کم لوگ ہیں جو اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اس کی روک تھام کے لیے سنجیدہ ہیں۔ شہری آبادی میں اضافے کے ساتھ سڑکوں پر گاڑیوں، بسوں، رکشوں، موٹر سائیکلوں وغیرہ کا ایک سیلاب برپا ہو چکا ہے۔ ہر چند منٹ بعد خطرناک ٹریفک حادثات ہمارا مقدر بن چکے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 35 سے 40 ہزار افراد ٹریفک حادثات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں جبکہ لاکھوں ہمیشہ کیلئے معذور ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کو سالانہ اربوں روپے کا معاشی نقصان بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ صرف صوبہ پنجاب کی سڑکوں پر روزانہ اوسطاً 750 ٹریفک حادثات ہوتے ہیں جن میں ہر روز اوسطاً 9 افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ان حادثات کی وجوہات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ان میں ٹریفک قوانین سے عدم واقفیت و عدم پاسداری، تیز رفتاری اور بنا فٹنس کے سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں جیسے عوامل سرفہرست ہیں۔ مذکورہ پہلی تین وجوہات کی بنیاد زیادہ تر کم عمر ڈرائیونگ ہی ہے۔
حال ہی میں لاہور میں ڈیفنس کے علاقے میں ایک چودہ سالہ لڑکے کی ڈرائیونگ کے باعث انتہائی افسوسناک حادثہ پیش آیا جس میں چھ قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو گئیں اور تین افراد زخمی ہوئے۔ اس حادثے کے بعد صوبائی حکومت بھی جاگ گئی اور ٹریفک پولیس کی رپورٹ بھی سامنے آگئی۔ اب عدالت عالیہ نے اس ضمن میں ایک اہم حکم صادر کیا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عمل درآمد کس حد تک ہو پاتا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے بغیر لائسنس گاڑی اور موٹر سائیکل چلانے والوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت عالیہ نے لاہور کے علاقے ڈیفنس میں کار حادثے میں 6 افراد کے جاں بحق ہونے کی ایف آئی آر میں دفعہ 302 شامل کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ عدالتی حکم پر چیف ٹریفک آفیسر اور ایس ایس پی آپریشنز عدالت میں پیش ہوئے، پنجاب حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ڈیفنس کار حادثہ انتہائی افسوسناک ہے‘ بتائیں لاہور میں کتنے لوگوں کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہے؟ جس پر سی ٹی او لاہور نے جو چشم کشا حقائق پیش کیے ان کے مطابق لاہور میں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد 73 لاکھ ہے جبکہ صرف 13 لاکھ افراد کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہیں، یعنی ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 60 لاکھ گاڑیاں ایسے افراد چلا رہے ہیں جن کے پاس ٹریفک لائسنس ہی نہیں ہے۔ رواں سال 14 لاکھ افراد کو لرنر لائسنس جاری کیے گئے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ جس کے پاس لائسنس نہیں ہوتا وہ اپنے آپ کو کسی اعلیٰ شخصیت کا رشتہ دار یا صحافی بتاتا ہے، آپ بتائیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر کیسے بغیر لائسنس گاڑیاں چل رہی ہیں؟ بتائیں ڈیفنس واقعہ کے بعد بغیر لائسنس گاڑیاں چلانے والے کتنے افراد کے خلاف کارروائی کی گئی۔ عدالت نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا 2018ء کا فیصلہ ہے کہ بغیر لائسنس کے گاڑی رجسٹرڈ نہیں ہو سکتی‘ اس پر عمل کیوں نہیں ہوا؟ سی ٹی او نے عدالت کو بتایا کہ بغیر لائسنس گاڑیاں چلانے والے 919 افراد کے خلاف مقدمات درج کر کے انہیں گرفتار کیا گیا ہے جبکہ پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ڈیفنس کار حادثے کے ملزم افنان کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں تھا، ڈرائیونگ لائسنس نہ ہونے پر گاڑی کے مالک کو گرفتار کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا اور ملزم کے والد کی گرفتاری کیلئے رات گئے چھاپے مارے گئے۔ بعد ازاں لاہورہائیکورٹ نے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے بغیر لائسنس گاڑی اور موٹر سائیکل چلانے والوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ کوئی بھی شخص لائسنس کے بغیر گاڑی پر نہ آئے، ہر چوک میں ہر ٹریفک سگنل پر پولیس کی نفری تعینات کی جائے، کم عمر گاڑی اور موٹر سائیکل چلانے والوں کے خلاف بلاتفرق کارروائی کی جائے۔
مذکورہ بالا اندوہناک واقعے اور عدالتی فیصلے کے بعد نگران صوبائی حکومت کے احکامات بھی سامنے آئے ہیں۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبے بھر میں کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف کریک ڈائون کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے بغیر لائسنس کے گاڑیاں اور بائیک چلانے والے کم عمر ڈرائیوروں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے آئی جی پنجاب، سی سی پی او لاہور اور تمام آر پی اوز کو ہدایات جاری کر تے ہوئے کہا کہ کم عمر ڈرائیور نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ انہوں نے والدین سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ کم عمر بچوں کو گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں چلانے کی اجازت نہ دیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے سموگ کے تدارک کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران بھی اپنے ریمارکس میں کہا کہ برطانیہ میں ججز آج بھی سائیکلوں پر آتے ہیں، آپ سائیکلنگ کو فروغ دیں، جس کے نتیجے میں لاہوریے پانچ ماہ بعد آپ کو سائیکلوں پر نظر آئیں گے، حکومتی ادارے یہ سب کر سکتے ہیں۔
ہم نے اپنے بچپن میں بہت سائیکل چلائی تھی اور کم از کم دس سال تک سائیکل چلانے کے بعد ہی موٹر سائیکل چلانے کی اجازت ملی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی میں لوگ سڑکوں پر سائیکل چلانے کے سبب ٹریفک قوانین اور احتیاطی تدابیر سے خوب واقف ہوتے تھے اور پھر جب وہ بالغ ہونے کے بعد موٹر سائیکل یا گاڑی چلاتے تو لاپروائی کے سبب پیش آنے والے حادثات کی شرح کم ہوتی تھی۔ آج تو دیہات میں بھی چھوٹے چھوٹے بچے موٹر سائیکل دوڑاتے نظر آتے ہیں جبکہ شہروں میں تو کمسن بچے گاڑیاں تک چلا رہے ہوتے ہیں جن میں زیادہ تر ان بااثر اور بااختیار افسران یا سیاستدانوں کے بچے ہوتے ہیں جنہوں نے اس مسئلے کا تدارک کرنا ہے۔ جو افسران خود اپنے بچوں کو بڑے فخر کے ساتھ غیر قانونی طور پر ڈرائیونگ کی اجازت دیتے ہیں اور انہیں گاڑی دوڑاتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں‘ وہ دوسروں پر کیسے پابندیاں لگائیں گے؟
ڈیفنس کار حادثے کی تفصیلات سامنے آنے پر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ کم عمر ڈرائیور کی گاڑی کی ٹکر سے جاں بحق ہونے والے افراد کے خاندان کے سربراہ نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ملزم نے پہلے گھر کی خواتین سے بدتمیزی کی اور گاڑی میں ہاتھ ڈال کر ان کا دوپٹا کھینچنے کی کوشش کی، منع کرنے پر تکرار ہوئی جس کے بعد گاڑی سے پیچھا کر کے اس نے قصداً ٹکر ماری۔ یہ حادثہ نہیں بلکہ خاندان کی ٹارگٹ کلنگ ہے۔ نگران وزیراعلیٰ کے نوٹس لیے جانے کے بعد اب ایف آئی آر میں قتلِ عمد کے ساتھ دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کر لی گئی ہیں۔ مزید حقائق تحقیقات کے بعد ہی سامنے آ سکیں گے۔ حیرانی بلکہ پریشانی اور فکر کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی باشعور اور سنجیدہ انسان معمولی تکرار یا تلخ کلامی پر اتنا گھنائونا جرم کیسے کر سکتا ہے؟ ملزم کے والدین اگر کم عمری میں بچے کو گاڑی چلانے کی اجازت نہ دیتے تو شاید یہ افسوسناک واقعہ پیش نہ آتا۔ ایک طرف چھ قیمتی انسانی جانیں اس حادثے میں ضائع ہو گئیں تو دوسری طرف ملزم اور اس کا خاندان بھی سخت پریشانی میں مبتلا ہیں۔ یہ حکومت اور پنجاب پولیس کے لیے بھی ایک ٹیسٹ کیس ہے۔ اس واقعہ کو ایک مثال اور نمونۂ عبرت بنانا چاہیے تاکہ آئندہ منہ زور افراد اپنے کم عمر بچوں کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچیں کیونکہ کم عمر ڈرائیور بلاشبہ نیم حکیموں سے کہیں زیادہ خطرۂ جان ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں