اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو حقوق کی ادائیگی اور عدل و مساوات کے قیام کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ اسلام نے انسان و حیوان، عربی و عجمی، مسلم و غیر مسلم، مرد و عورت، امیر و غریب، چھوٹے بڑے، حاکم و محکوم اور اعلیٰ و ادنی‘ غرض ہر ایک کے حقوق کو جامع انداز میں پیش کیا۔ اسلام کی آمد سے قبل قدیم تہذیب و تمدن نے عورت کے وقار کو تباہ کر دیا تھا حتیٰ کہ اس دور کے متمدن معاشروں میں بھی خواتین کے حقوق کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اسی طرح جدید تہذیب نے بھی خواتین کو آزادی کے نام پر ایک شو پیس بنا دیا۔ اشتہاری مہمات میں خواتین کو استعمال تو کیا لیکن عورت کو عزت نہیں بخشی۔ آج یورپ حقوقِ نسواں اور آزادیٔ نسواں کا نام نہاد علمبردار بنا ہوا ہے مگر حقیقت میں مغرب نے عورت کو معاشرے میں اس کا جائز مقام دلانے کے بجائے اسے انتہائی پست انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔ حقیقی انسانی حقوق کے حوالے سے سب سے بلند نام اور عظیم مرتبہ نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیﷺ کا ہے۔ آپﷺ نے احترامِ انسانیت اور انسانی حقوق کے تاریخ ساز چارٹر کو خطبہ حجۃ الوداع میں بیان فرما دیا۔ فرمایا: لوگو! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔
اسلام سے پہلے عورت کو وراثت حتیٰ کہ بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا تھا لیکن دینِ اسلام نے عورت کو معاشرے میں نہ صرف جینے کا حق دیا بلکہ اسے اس کا جائز مقام بھی دلایا اور مردوں پر عورتوں کے متعدد حقوق عائد کیے۔ اسلام نے ماں کے روپ میں عورت کا درجہ اس طور پر بلند کیا کہ جنت کو ماں کے قدموں تلے قرار دیا۔ عورت کو بیوی کا درجہ دے کر اس قدر اس کی شان بڑھائی کہ اللہ رب العزت نے اپنی کتابِ مبین میں عورتوں کے حقوق مردوں کے برابر قرار دیے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ) اور عورتوں کا دستور کے مطابق مردوں پر ویسا ہی حق ہے جیسے مردوں کا عورتوں پر حق ہے اور مردوں کو ان پر ایک منزلت حاصل ہے۔ (سورۃ البقرہ: 228) مرد کو عورت پر ایک منزلت اللہ رب العزت نے اس لیے عطا فرمائی کہ وہ عورتوں کی نگرانی، ان کی نگہبانی اور ان کے نان نفقے کی ذمہ داری بہتر طور پر انجام دے۔
الحمدللہ وطن عزیز پاکستان میں عورتوں کو تمام جائز حقوق میسر ہیں اور وہ زندگی کے ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں لیکن ہمارے ہمسایہ برادر ملک افغانستان میں خواتین کے حقوق میں وقت کے لحاظ سے تبدیلی آتی رہی ہے۔ افغانستان میں 1964ء کے آئین کے تحت خواتین کو باضابطہ طور پر برابری ملی؛ تاہم یہ حقوق 1990ء کی دہائی میں مختلف عارضی حکومتوں اور خانہ جنگی کے دوران چھین لیے گئے۔ پھر 2004ء کے آئین کے تحت عورتوں کو مردوں کے برابرحقوق دیے گئے۔ یہ آئین 1964ء کے آئین کے بہت قریب تھا؛ تاہم خواتین کے حقوق کی فراہمی کا معاملہ اب بھی کچھ گروہوں‘ خاص طور پر دیہی علاقوں اور قبائلی معاشرے کی وجہ سے پیچیدہ ہے۔ 2021ء میں جب طالبان نے افغانستان کے بیشتر حصے پر دوبارہ قبضہ کیا تو ملک میں خواتین کے مستقبل کے حوالے سے دنیا بھر میں تشویش پائی گئی۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے پہلے دور میں خواتین کو کام پر جانے سے منع کیا گیا کہ وہ اپنے گھر سے باہر نہیں نکلیں گی جب تک کہ خاندان کا کوئی مرد ان کے ساتھ نہ ہو۔ جب وہ باہر جاتی تھیں تو ان کے لیے جسم کو مکمل ڈھانپنے والا برقع پہننا ضروری تھا۔ خواتین کو رسمی تعلیم سے محروم رکھا گیا اور عام طور پر انہیں گھر میں رہنے پر ہی مجبور کیا جاتا۔ نوے کی دہائی کے اواخر میں برسر اقتدار آنے والے طالبان کے پانچ سالہ دورِ حکمرانی کے دوران افغانستان میں خواتین کو گھروں میں نظر بند کر دیا جاتا اور انہیں اپنی کھڑکیوں پر پینٹ کرنے پر بھی مجبور کیا جاتا تاکہ کوئی اندر نہ جھانک سکے۔ چونکہ طالبان حکومت سے پہلے زیادہ تر اساتذہ خواتین تھیں‘ خواتین کی ملازمت پر نئی پابندیوں نے اساتذہ کی بہت بڑی کمی کو جنم دیا جس نے لڑکوں اور لڑکیوں‘ دونوں کی تعلیم پر بہت زیادہ منفی اثر ڈالا۔ اگرچہ خواتین پر زیادہ تر ملازمتوں کے دروازے بند کر دیے گئے تھے اور ان میں تدریس کا شعبہ بھی شامل تھا؛ البتہ طبی شعبے میں کچھ خواتین کو کام جاری رکھنے کی اجازت دی گئی۔ اس کی وجہ بھی یہ تھی کہ طالبان کا تقاضا تھا کہ خواتین کا علاج صرف خواتین معالج ہی کر سکتی ہیں۔
اگست 2021ء میں افغان صدر اشرف غنی اور امریکہ نے افغانستان کو چھوڑ دیا اور طالبان نے دوبارہ اس کا کنٹرول سنبھال لیا اور ایک نئی‘ عبوری حکومت قائم کر دی۔ اس عبوری حکومت کو بین الاقوامی سطح پر تاحال تسلیم نہیں کیا گیا کیونکہ بین الاقوامی برادری نے اس منظوری کو خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کی فراہمی سے منسلک کر رکھا ہے۔ طالبان کی طرف سے بارہا یقین دہانیوں کے باوجود کہ خواتین کے حقوق کا احترام کیا جائے گا، ان کی تعلیم اور کام تک رسائی پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ کچھ علاقوں میں طالبان نے خواتین کو مکمل طور پر کام بند کرنے پر مجبور کیا۔ نچلے درجات میں تعلیم صرف جنس کے لحاظ سے الگ کلاسوں میں دوبارہ شروع ہوئی۔ اعلیٰ درجات (7 سے 12 تک) اور یونیورسٹی کی سطح پر لڑکیوں اور خواتین کے لیے کلاسز کو معطل کیا جا چکا ہے۔ کابل یونیورسٹی کے نئے چانسلر محمد اشرف غیرت نے گزشتہ دنوں اعلان کیا کہ خواتین کو تعلیم یا کام کے لیے یونیورسٹی واپس آنے کی اجازت نہیں ہے۔ طالبان حکومت نے ان اقدامات کی وجہ سکیورٹی خدشات کو قرار دیا مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ کن شرائط کے تحت لڑکیوں کو سکول واپس جانے کی اجازت دی جائے گی۔ طالبان کی نئی عبوری کابینہ میں کسی بھی خاتون کو وزیر یا نائب وزیر کے طور پر شامل نہیں کیا گیا۔ خواتین کے امور کی وزارت کو ختم کر دیا گیا۔ ان اعلانات کے بعد خواتین کے مظاہروں کو‘ خاص طور پر کابل میں‘ طالبان کی سکیورٹی فورسز کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق طالبان کے دورِ حکومت میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد میں بتدریج اضافہ ہوا ہے جبکہ افغان پارلیمنٹ کی سابق رکن فوزیہ کوفی نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان حکومت نے خواتین مخالف 80 حکم نامے جاری کیے ہیں۔ فوزیہ کوفی نے افغان خواتین کی محرومیوں کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھائی ہے۔ 23 نومبر کو ماسکو اجلاس میں انہوں نے طالبان حکومت کے ان احکامات کی نشاندہی کی جنہوں نے افغان خواتین کو ان کے جائز حقوق سے محروم کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت نے افغان خواتین کی شناخت کو مسخ کر دیا ہے۔ دوسری جانب اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اگست 2021ء میں طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، 2023ء میں افغانستان میں عورتوں کے 60 ہزار سے زائد کاروباروں کو بند کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے ایک جائزے کے مطابق‘ طالبان حکومت کے اقتدار کے بعد 2025 ء تک 51 ہزار سے زائد خواتین کو دورانِ زچگی اموات کا امکان ہو سکتا ہے۔حقوق کی پامالیوں کی وجہ سے افغانستان میں خودکشی کرنے والوں کی اکثریت بھی خواتین ہی کی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ہونے والی مجموعی خودکشیوں میں خواتین کی شرح تقریباً 80 فیصد ہے۔ ہمارا مذہب اسلام جہاں عورت کو تمام حقوق برابری کی سطح پر عطا کرتا ہے، وہیں عورت کو محفوظ و باوقار زندگی گزارنے کیلئے پردے سمیت کئی راہ نما اصول بھی بتاتا ہے جن پر عمل کرکے ایک خاتون معاشرے میں باعزت طور پر اپنی زندگی گزار سکتی ہے۔ ہم مغرب کی نام نہاد اور مادر پدر آزادی کے قائل نہیں جس میں عورت کو شو پیس بنا دیا گیا ہے لیکن اسلام خواتین کی تعلیم اور جائز ضرورت کے تحت گھر سے نکلنے پر پابندی لگانے کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ افغانستان کو معاشرے کے تمام طبقات کو ان کے حقوق دینے کا وعدہ پورا کرنا چاہیے اور عورتوں کو تعلیم سمیت‘ شریعت کے مطابق تمام حقوق دینے چاہئیں۔