'نوکر کی تے نخرہ کی‘ کے مصداق دنیا بھر میں مزدوروں کے حقوق صرف کہنے کی حد تک ہی رہ گئے ہیں۔ اب تو یکم مئی کو عالمی یومِ مزدور کے موقع پر میڈیا پبلسٹی کے لیے کوئی ریلی، تقریب یا سیمینار منعقد کرکے اور وہاں مزدوروں کے حق میں چند تقاریر کرکے اور کچھ قراردادیں منظور کر کے یہ تصور کر لیا جاتا ہے کہ سال بھر کے لیے غریب مزدور کا حق ادا کر دیا گیا ہے اور پھر ایک سال تک کوئی بھی عام کارکن اپنے حقوق کی بات نہیں کر سکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشی بہتری کا راز صنعتی ترقی میں مضمر ہے کیونکہ جس ملک کی صنعت ترقی یافتہ ہو گی وہاں لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اور قومی معیشت بھی مستحکم ہو گی۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو یورپ میں صنعتی ترقی کا آغاز تقریباً دو سو برس پہلے ہوگیا تھا جبکہ وطن عزیز پاکستان سمیت ایشیا کے اس خطے میں آج بھی انڈسٹری اُس طرح عروج کی جانب گامزن نہ ہو سکی۔ اسی طرح جنوبی ایشیائی ممالک وہ ملک ہیں جہاں مزدور کی تنخواہ آج بھی سب سے کم ہے۔ حکومت پاکستان نے رواں برس مزدور کی کم سے کم ماہانہ تنخواہ 32 ہزار روپے مقرر کرنے کی منظوری دی جو تقریباً 110 سے 115امریکی ڈالر بنتی ہے جبکہ اس سے قبل یہاں مزدور کی ماہانہ اجرت محض 80 ڈالر تک تھی۔ آئیے دیگر ممالک میں مزدور کی کم سے کم اجرت کا جائزہ لیا جائے۔ برطانیہ میں مزدور کی کم از کم ماہانہ تنخواہ 1900 ڈالر ہے۔ سپین میں 950 یورو (لگ بھگ 1038 ڈالر) بلجیم میں 1625 یورو (1775 ڈالر)، جرمنی میں 1890 ڈالر، فرانس میں 1539 ڈالر، جاپان میں 1527 ڈالر، آسٹریلیا میں 2400 ڈالر، ہانگ کانگ میں 700 ڈالر اور ترکیہ میں 525 ڈالر ہے۔ سعودی عرب سمیت بعض خلیجی ممالک میں مزدور کی تنخواہوں میں امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ بیرونی ممالک سے آنے والے مزدور کی کم از کم ماہانہ تنخواہ 500 ریال (133 ڈالر) جبکہ مقامی مزدور کی تنخواہ 4000 ریال (1066 ڈالر) مقرر ہے۔
مزدوروں کے مسائل تقریباً پوری دنیا میں یکساں ہیں۔ جب تک کسی بھی خطے میں مجموعی طور پر معاشی ترقی نہیں ہوتی‘ تب تک وہاں پر عام آدمی کی انفرادی حالت بہتر ہونا آسان نہیں ہوتا۔ پاکستان سمیت ایشیائی ممالک میں مہنگائی اور غربت و بیروزگاری میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاستدان عام انتخابات کے دوران بلند بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد مزدوروں کے حقوق کو تسلیم تک نہیں کرتے۔ نہ ان کے حالات بہتر بنانے کے لیے کچھ اقدامات کیے جاتے ہیں۔ سابق دورِ حکومت میں مختلف اداروں سے ملازمین کی سب سے زیادہ برطرفیاں ہوئیں، مزدور اور دیہاڑی دار پہلے ہی تباہ تھے‘ رہی سہی کسر موجودہ دور کی بدترین مہنگائی نے پوری کر دی۔ شاعرمشرق علامہ اقبالؒ نے رب تعالیٰ سے بندۂ مزدور کی تنگدستی کا شکوہ یوں کیا تھا:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
گزشتہ مالی سال بین الاقوامی ادارۂ محنت کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا کی ایک بڑی آبادی انتہائی خراب حالات میں کام کرتی ہے‘ حالات اتنے خراب ہیں کہ لاکھوں مزدور اور ملازمین کام کے بوجھ کی تاب نہ لا کر ہلاک ہو جاتے ہیں، لاکھوں مزدوروں کے کام کی جگہ اتنی خطرناک اور آلودہ ہوتی ہے کہ وہ ان کی ہلاکت کا سبب بن جاتی ہے، مگر اس کے باوجود سرمایہ دار اور صنعتکار نہ کام کی جگہ بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہلاک ہونے والے مزدوروں کے ورثا اور لواحقین کی اشک شوئی کا کوئی انتظام کیا جاتا ہے بلکہ ان اموات پر اظہارِ تاسف تک نہیں کیا جاتا۔ آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا میں 30 لاکھ افراد کام سے متعلق حادثات اور مختلف قسم کی بیماریوں کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ تعداد 2000ء کے مقابلے میں 12 فیصد اور 2015ء کے مقابلے میں پانچ فیصد زیادہ ہے۔ اس رپورٹ کے دو نکات انتہائی اہم ہیں: اول‘یہ اموات تسلسل کے ساتھ ہو رہی ہیں اور ان کی سب سے بڑی وجہ ہفتہ میں 55 گھنٹے سے زیادہ کام کے اوقات ہیں۔ اوقاتِ کار میں جبری اضافے کی وجہ سے ہلاک ہونے والے کارکنوں کی تعداد تقریباً ساڑھے سات لاکھ ہے۔ دوم‘ کام کے دوران زخمی ہونے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ورکرز کے لیے محفوظ کام کا کلچر تیار نہیں کیا جا سکا۔ ایک دوسری تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق: کام سے متعلقہ بیماریوں سے ہونے والی اموات کی تعداد میں عالمی سطح پر مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔یہ مطالعاتی تحقیق فن لینڈ کی ٹیمپیر یونیورسٹی اور اٹلی میں انٹرنیشنل کمیشن آن آکیوپیشنل ہیلتھ کے محققین نے کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کورونا کی عالمی وبا سے پہلے تک یعنی 2011 ء سے 2019ء کے دوران پیشہ ورانہ بیماریوں سے منسلک اموات میں 26 فیصد اضافہ ہوا۔ 2019ء میں 29 لاکھ اموات صرف کام کی وجہ سے ہوئی ہیں جبکہ 2 لاکھ 60 ہزار اموات کام سے متعلق بیماریوں کی وجہ سے ہوئیں جبکہ کام کے دوران زخم لگنے کی وجہ سے 3 لاکھ 20 ہزار اموات ہوئیں۔ اس رپورٹ میں ان اموات کو شامل کیا گیا ہے جو کہیں نہ کہیں‘ کسی نہ کسی شکل میں رپورٹ ہوئی ہیں جبکہ لاکھوں ایسی اموات بھی ہیں جن کا کہیں کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ غیر منظم شعبہ میں کام کرنے والے کارکنوں کو اس قسم کے حالات کا زیادہ سامنا رہتا ہے اور ان کی ایک بڑی تعداد ہر روز اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ فلک بوس عمارتوں کی بنیادوں میں ایسے ہزاروں مزدوروں کے باقیات دیکھی جا سکتی ہیں لیکن یہ اموات کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں بن پاتی ہیں۔ کارکنوں اور مزدوروں کی حالتِ زار دنیا بھر میں یکساں ہے لیکن ترقی پذیر ممالک میں یہ صورتحال کچھ زیادہ ہی سنگین ہے کیونکہ ان ممالک میں مزدور کی اجرت اس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے قطعی ناکافی ہوتی ہے، یہاں صورتحال کہیں زیادہ قابلِ رحم اور تشویش ناک ہے۔ اگرچہ بعض ترقی یافتہ ممالک میں بھی مزدوروں کے حالات زیادہ قابلِ رشک نہیں ہیں اور وہاں بھی مزدوروں کے ساتھ ظلم، جبر، زیادتی اور ناانصافی ہی دیکھنے کو ملتی ہے لیکن وہاں کم از کم ماہانہ اجرت بہتر ہونے کے باعث غریب مزدور کے مسائل قدرے کم ہیں۔
ایک عام کارکن کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو‘ اسے مزدور ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ صنعتی کارکن بھی مزدور ہے اور تعمیراتی شعبے میں کام کرنے والا بھی مزدور ہے، زرعی کھیتوں میں دیہاڑی دار کارکن ہو یا سبزی منڈی میں پھلوں اور سبزیوں کی پیٹیاں اٹھانے والا‘ یہ سب مزدور ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ پر خدمات سرانجام دینے سے لے کر مختلف اداروں میں کام کرنے والے عام کارکنان تک‘ سب اسی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ ہمارے جیسے صحافتی کارکنوں کو بھی قلم کا مزدور ہی کہا جاتا ہے۔ اجرت کم یا زیادہ ہونا تو ایک مسئلہ ہے ہی لیکن پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں کسی بھی مزدور کے لیے سب سے بڑی اور اہم مشکل اس کے اوقاتِ کار ہیں کیونکہ اسے آجر کی جانب سے کام شروع کرنے کے لیے شفٹ کا وقت تو بتا دیا جاتا ہے اور اس پر سختی سے عمل بھی کرایا جاتا ہے لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ آٹھ گھنٹے کی شفٹ مکمل ہونے کے بعد اسے چھٹی ملے گی یا نہیں، اگرچہ ڈیوٹی کا وقت آٹھ گھنٹے مقرر ہے لیکن اکثر شعبوں میں چھٹی کا وقت روزمرہ کے تمام امور نمٹانے سے مشروط ہوتا ہے یعنی آنے کا وقت تو مقرر ہوتا ہے لیکن جانے کا نہیں۔ شاید یہی نکتہ سامنے رکھتے ہوئے حکیم الامت نے قادرِ مطلق سے مزدور کے اوقات کا شکوہ کیا تھا۔