"ZAM" (space) message & send to 7575

ڈیرہ غازی خان اگر صوبہ ہوتا

پاکستان میں جیسے ہی کوئی نیا آئیڈیا سامنے آتا ہے‘ طرزِ کہن کے پیروکار اس کے پیچھے سازشی تھیوری کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ ذہن کے سمندر کی اتھاہ گہرائیوں میں تخیل کو غوطے دیتے ہیں کہ ''سازش‘‘ کی مکمل جانکاری نہ سہی‘ کوئی جھوٹا سچا سراغ ہی نکال لائیں تاکہ نئے تصور کے آئینِ نو سے ڈراوے کا کوئی جواز گھڑا جا سکے۔
سابق ضلع ناظم لاہور میاں عامر محمود نے جب حالیہ دنوں پاکستانی عوام کے بنیادی مسائل کے تیز رفتار حل‘ کرپشن میں ہر ممکن حد تک کمی اور ویلیو فار منی کا فارمولا 33 ڈویژنل صوبوں کی صورت میں پیش کیا تو سازشی تھیوری نگار‘ جو نہ پاکستان کے نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ سے واقف ہیں نہ صوبائی فنانس ایوارڈ (پی ایف سی) کے تحت لاہور سے دیگر 40 اضلاع تک مالی وسائل کی عمودی اور افقی تقسیم کے کسی فارمولے سے آشنا ہیں اور نہ ہی دنیا میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کے ثمرات سے آگاہ ہیں‘ ایسے ایسے بیانات جاری کرنے لگے کہ حقیقت بھی منہ چھپانے پر مجبور ہو گئی۔ کہا گیا کہ میاں عامر محمود صاحب نے یہ آئیڈیا ''اُن‘‘ کے کہنے پر لانچ کیا ہے‘ اور یہ کہ اس کا مقصد بڑے سیاسی یونٹس کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ کر ان کی سیاسی قوت کو کمزور کرنا ہے تاکہ طاقتوروں کو ان پر ٹوٹل کنٹرول میں زیادہ لے دے نہ کرنا پڑے مگر ان کوتاہ بینوں اور جمہوریت کے نام نہاد چیمپئنز سے کوئی پوچھے کہ موجودہ بڑے حجم کے صوبوں کی موجودگی میں طاقتوروں کو ٹوٹل کنٹرول سے کون روک سکا ہے اور کیا اس کے اصل ذمہ دار بینظیر بھٹو اور وارثان کی مصالحتی جمہوریت‘ نواز شریف کی امیر المومنین بننے کی خواہش‘ عمران خان کی سیاسی گلیوں کا مرزا یار ٹائٹل جیتنے کی خواہش‘ ایم کیو ایم کی انقلابی لائن چھوڑ کر لسانی فاشزم کی بے راہ روی‘ مذہبی جماعتوں کی دورِ جدید کی سیاست سے گریز اور چودھری برادران کی مٹی پاؤ تے روٹی کھاؤ تک محدود سیاست نہیں ہے؟
ریکارڈ کی درستی کیلئے ایک تاریخی حقیقت قارئین پر آشکار کرتا چلوں کہ یہ 2014ء کے آخری دنوں کی بات ہے‘ میں دنیا ٹی وی سے منسلک تھا۔ ایک میٹنگ کے دوران میاں صاحب نے ڈویژنل صوبوں کے بارے میں آئیڈیا شیئر کیا جس پر وہ پہلے سے کام کر رہے تھے اور میری بھی اس سلسلے میں کچھ ڈیوٹیز لگائی گئیں۔ 2015ء میں ہم نے اُس وقت کی 28 ڈویژنوں کے لحاظ سے دنیا ٹی وی پر ایک انویسٹی گیٹو نیوز سٹوری نشر کی‘ جو ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ عامر محمود صاحب نے یہ آئیڈیا اچانک فلوٹ کر دیا‘ سراسر جھوٹ اور کم علمی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
حالیہ سیلاب کے دوران جانے انجانے میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی سرگرمیوں نے بھی ڈویژنل سطح کے صوبوں کی ضرورت پر ایک لحاظ سے ٹھپہ لگا دیا ہے۔ قبل اس کے کہ بات آگے بڑھے‘ یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ذیل میں جو اعداد وشمار دیے جا رہے ہیں‘ ان کے پیچھے ٹھوس حقائق اور ناقابلِ تردید دستاویزی ثبوت ہیں۔ اگست کے مہینے میں جب کئی دہائیوں بعد تین مشرقی دریا ستلج‘ راوی اور بیاس اور پاکستانی ملکیت کے مغربی دریا چناب چند گھنٹوں کے وقفے سے 17 لاکھ کیوسک کے قیامت خیز ریلوں کے ساتھ پاکستان میں داخل ہوئے تو قصور سے جنوبی پنجاب اور سندھ تک پورا نظام ہل کر رہ گیا۔ آخرکار چاروں دریاؤں کا پانی پھیلتے پھیلتے پنجاب کے آخری بیراج پنجند پر سات لاکھ کیوسک تک محدود ہو گیا۔ طغیانی میں کمی آنے کے باوجود اس ریلے نے ملتان کی تحصیل شجاع آباد اور ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل علی پور کو ڈبو دیا‘ جس سے لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور متعدد جان سے گئے۔ اس ساری صورتحال میں وزیراعلیٰ پنجاب صوبائی انتظام کو تیاگ کر علی پور اور دیگر متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف آپریشن کی نگرانی کیلئے '' ہیلی کاپٹر ایکسپریس‘‘ کی مسلسل مسافر بنی رہیں اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب کو جنوبی پنجاب کے دو متاثرہ اضلاع میں ایک ہفتے کیلئے ڈیرے ڈالنا پڑے۔ اس ساری تگ ودو سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ ریسکیو اور ریلیف کا یہ کام‘ جو ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ یا زیادہ سے زیادہ کمشنر ڈی جی خان ڈویژن کر سکتا تھا‘ اس کیلئے وزیراعلیٰ کی موقع پر براہ راست موجودگی سیاسی اور انتظامی لحاظ سے ناگزیر تھی۔ اب ذرا تصور کریں کہ اگر ڈی جی خان ڈویژن ایک صوبہ ہوتی تو پونے پانچ سو کلومیٹر دور سے مریم نواز علی پور پہنچتیں یا سوا سو کلومیٹر دور ڈیرہ غازی خان شہر میں بیٹھے وزیراعلیٰ‘ چیف سیکرٹری اور دیگر حکام علی پور پہنچتے‘ جنہیں کار میں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ گھنٹہ اور ہیلی کاپٹر پر محض بیس منٹ لگتے۔ ممکن ہے ڈیرہ غازی خان کو بطور صوبہ تسلیم کرانے کیلئے وزیراعلیٰ مریم نواز کی براہ راست نگرانی ایک ناکافی اور کمزور دلیل محسوس ہو‘ اس لیے مزید حقائق پیشِ خدمت ہیں۔
پنجاب حکومت کی ایک سرکاری دستاویز (جو اگلے چند ہفتوں میں پبلک ہو سکتی ہے) میں انکشاف کیا گیا ہے کہ لیہ‘ راجن پور‘ مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان اضلاع پر مشتمل یہ ڈویژن پنجاب میں غربت کے Multidimensional Poverty Index (ایم پی آئی) میں معیارِ زندگی اور تعلیم وصحت کی سہولتوں سمیت 10 اشاریوں کے لحاظ سے غریب ترین علاقہ ہے‘ جہاں غربت کی شرح 47.7 فیصد ہے۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کو 30 جون 2025ء کو ختم ہونے و الے مالی سال کے دوران کتنا بجٹ ملا؟ اس کیلئے ہم نے لیہ‘ مظفر گڑھ‘ راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے ضلعی اکاؤنٹس دفاتر سے جو ڈیٹا اکٹھا کیا اس کے مطابق مالی سال 2024-25 ء میں اس ریجن کو 157ارب 49 کروڑ روپے کی ادائیگیاں کی گئیں۔ اس میں تعلیم‘ بلدیات‘ صحت‘ کورٹس اور پولیس سمیت تمام سرکاری محکموں کے ملازمین کی تنخواہیں‘ پنشن‘ پٹرول‘ بجلی‘ پانی کے بلوں پر اٹھنے والے اخراجات اور ترقیاتی سکیموں کے ٹھیکوں کی ادائیگیاں شامل ہیں۔ صوبائی قرضوں اور سود کی مد میں 844 ارب روپے ادائیگی کے بعد بچنے والے 4099 ارب روپے میں سے ڈیرہ غازی خان ڈویژن کو ڈویلپمنٹ اور نان ڈویلپمنٹ اخراجات کی مدات میں صرف 3.8 فیصد بجٹ ملا ہے‘ جبکہ اس کی آبادی صوبے کی کُل آبادی کے 10 فیصد سے زائد ہے۔
اب جائزہ لیتے ہیں ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے صوبے بننے کی صورت میں اس کے ممکنہ مالی وسائل کا۔ اس وقت رائج ساتویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے فارمولے کے تحت وفاقی قابلِ تقسیم محاصل میں سے صوبوں کو 82 فیصد آبادی کی بنیاد پر جبکہ باقی 18 فیصد غربت‘ پسماندگی‘ ٹیکس وصولیوں اور کم گنجان آبادی (Inverse population density) کے اعتبار سے ملتے ہیں۔ ضلع ڈیرہ غازی خان کی آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق 30 جون 2025ء تک ایک کروڑ 34 لاکھ سات ہزار نفوس تھی‘ جو کُل ملکی آبادی کا 5.3 فیصد ہے۔ زیر بحث مالی سال میں قابلِ تقسیم وفاقی محاصل کا حجم 6773 ارب روپے اور آبادی کی بنیاد پر قابلِ تقسیم 82 فیصد 5554 ارب روپے بنتا ہے۔ اگر ڈیرہ غازی خان کو ایک الگ صوبہ سمجھ کر صرف آبادی کی بنیاد پر اس کا حصہ نکالا جائے تو یہ رقم 294 ارب 35 کروڑ روپے بنتی ہے۔ پنجاب کا غریب ترین علاقہ ہونے کے باعث اسے 40 سے 50 ارب روپے مزید مل سکتے ہیں‘ جو اس وقت ملنے والے 157 ارب 49 کروڑ کے بجٹ سے 187 ارب روپے زیادہ ہیں‘ یعنی موجودہ بجٹ سے 119 فیصد زیادہ۔
آئینِ نو سے ڈرنے والے ایک دلیل یہ دیتے ہیں کہ نئے ڈویژنل صوبے کی صورت میں وزیراعلیٰ‘ کابینہ‘ گورنر‘ صوبائی بیورو کریسی کیساتھ کوئی دیوہیکل نظام ترتیب پائے گا جو سارا بجٹ ہڑپ کر جائے گا۔ اگلے کالم میں ہم اس خدشے کا ٹھوس شواہد اور دلائل کی روشنی میں جائزہ لیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں