زراعت پیشہ افراد کو سہولیات و ریلیف نہ ہونے کے برابر
فیصل آباد (عبدالباسط سے )پاکستان یوں تو زرعی ملک ہے لیکن کاشتکاروں اور شعبہ زراعت سے وابستہ افراد کو سہولیات اور ریلیف نہ ہونے کے برابر ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق کے مطابق فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا اور ایک کروڑ سے زائد آبادی والا شہر ہے جس کی 65 فیصد سے زائد آبادی شعبہ زراعت سے منسلک ہے ۔ اس شہر کا ٹوٹل 44 لاکھ 2 ہزار 50 ایکڑ سے زائد رقبہ قابل کاشت ہے ۔ لیکن سہولیات کی کمی، کھادوں، زرعی آلات ، بجلی کے بلز اور دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے کی وجہ سے ٹوٹل رقبے میں سے صرف 36 لاکھ 46 ہزار ایکڑ کے لگ بھگ رقبہ ہی زیر کاشت رہ گیا۔ سہولیات کے فقدان کی وجہ سے کاشتکار اپنے زرعی رقبوں کو رہائشی کالونیوں میں تبدیل کرتے جارہے ہیں۔ گزشتہ ایک سے ڈیڑھ سال کے دوران یوریا کی قیمت 1900 روپے سے بڑھ کر 3600 روپے تک جاپہنچی ہے ۔
جبکہ ڈی اے پی کی قیمت 9600 روپے سے بڑھا کر 12500 تک پہنچادی گئی ہے ۔ فصلوں کو کیڑوں مکوڑوں اور مختلف بیماریوں کے حملوں سے بچانے کیلئے استعمال کی جانے والی زرعی ادویات کی قیمتوں میں بھی گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران دو گناہ سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ تھریشر کی قیمت سال 2022 میں 4 لاکھ روپے تھی جو اب بڑھ کر مختلف کمپنیوں کی کوالٹی کے حساب سے 11 سے 12 لاکھ روپے تک جاپہنچی ہے ۔ اسی طرح سے 85 ہارس پاور کے امپورٹڈ ٹریکٹر کی قیمت سال 2022 میں 30لاکھ روپے تھی جو اب رواں سال میں 44 لاکھ روپے سے بھی تجاوز کرچکی ہے ۔ پاکستانی برانڈ کے 75 ہارس پاور کے ٹریکٹرز کی گزشتہ سال قیمت 22 لاکھ روپے تھی جو اب سال 2023 میں 31 لاکھ روپے سے بھی تجاوز کرچکی ہے ، جس سے شعبہ کاشتکاری سے وابستہ افراد بدحالی کا شکار بنتے جارہے ہیں۔ کاشتکار وں کاکہناہے کہ حالیہ بجٹ میں کسانوں کو ریلیف دیا جائے جبکہ کسان بورڈ کے صوبائی نائب صدر میاں ریحان الحق کا کہنا ہے کہ بجٹ سے پہلے ہونے والے پری بجٹ سیشن میں کسان رہنماؤں کو شامل کیا جائے تاکہ وہ اپنے مسائل اور مطالبات کو سامنے رکھ سکیں۔