دھاگہ درآمد کرنے کی حکومتی اجازت ، سوتر منڈی میں ویرانے
فیصل آباد(بلال احمد سے )ایشیاء کی سب سے بڑی سوتر منڈی میں ویرانیوں نے ڈیرے ڈال لیے ، ایکسپورٹرز کو دھاگہ درآمد کرنے کی حکومتی اجازت کے بعد صنعتوں نے مقامی تاجروں سے منہ موڑ لیا۔۔
امپورٹڈ دھاگہ سستا اور مقامی مہنگا ہونے کے باعث مارکیٹ میں نئے بحران نے جنم لے لیا ۔تفصیلات کے مطابق فیصل آباد کی سب سے بڑی سوتر منڈی میں مندی کے بادل مزید گہرے ہوگئے ، ایکسپورٹ فیسیلیٹیشن سکیم کے تحت صنعت کاروں کو بیرون ملک سے دھاگہ امپورٹ کرنے کی اجازت ملنے پر مقامی سطح پر اس کاروبار سے وابستہ افراد کا معاشی قتل عام ہونے لگا۔ ذرائع کے مطابق مقامی ٹیکسٹائل اسپنرز کو کاٹن یارن کی بڑھتی درآمدات نے مشکلات میں ڈال رکھا ہے ، پاکستان میں روئی قیمتوں میں کمی اور عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافے نے ملوں کو درآمدات کے مقابلے ملکی کپاس کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کرنے پر اکسایا تاہم اب بھی کپاس کی کھپت پیداوار سے زیادہ ہے جس سے درآمدات میں اضافہ ناگزیر ہوچکا ۔ ذرائع کے مطابق بیرون ملک سے تقریبا 60 لاکھ گانٹھیں درآمد کی جائیں گی جن میں سے تقریباً 22 لاکھ گانٹھوں کے معاہدوں کو حتمی شکل دی جا چکی ۔آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن نے فنانس ایکٹ 2024ء کے تحت ایکسپورٹ کیلئے مقامی سپلائیز پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ واپس لینے کے بعد ایکسپورٹ فیسیلیٹیشن سکیم (EFS)کے غلط استعمال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔ ریجنل چیئرمین اپٹما نوید گلزار کا کہنا ہے کہ مقامی دھاگے کے مقابلے میں صنعتی امپورٹڈ دھاگے کو ترجیح دی جا رہی ، رواں مالی سال امپورٹ کل دھاگے میں سے صرف 8 فیصد سے ڈیوٹی وصول کی جا سکی جو مسئلے کی سنگینی واضع کر رہی ۔ سابق چیئرمین پاکستان یارن مرچنٹس ایسوسی ایشن قیصر شمس نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دھاگے کی امپورٹ بارے پالیسی پر نظرثانی کی جائے ۔