گلابی باغ :صرف دائی انگہ مقبرہ،مختصر رقبہ رہ گیا
ریلوے سٹیشن، گڑہی شاہو اور دیگر ملحقہ علاقے اِسی باغ کا حصہ تھےحکومت تمام تاریخی مقامات کی بحالی کے منصوبے پر عمل پیرا :سیکرٹری ٹورازم
لاہور(سہیل احمد قیصر)ایک زمانے میں وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا گلابی باغ اپنی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگا ۔ گلابی باغ صرف دائی انگہ کے مقبرے اور مختصر رقبے پر ہی رہ گیا ۔ تفصیل کے مطابق لاہور کا مشہور گلابی باغ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنی دایہ ، دائی انگہ کی خواہش پر تعمیر کرایا تھا۔ اُس دور میں ریلوے سٹیشن، گڑہی شاہو اور دیگر ملحقہ علاقے اِسی باغ کا حصہ تھے ۔ بعدازاں دائی انگہ نے وصیت کی کہ اُن کی وفات کے بعد اُنہیں اِسی باغ میں دفن کیا جائے جس پر عمل کیا گیا۔ دائی انگہ کی وفات کے بعد اُن کی قبر پر 1671 میں شاندار مقبرہ تعمیر کیا گیا۔ آج گلابی باغ صرف اِسی مقبرے اور مختصر سے رقبے پر محیط باقی رہ گیا ہے ۔ دوحصوں پر محیط اِس مقبرے کے داخلی راستے پر موجود پہلی عمارت پر کاشی گری اور فن کے دیگر نمونے بہت نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں ۔ دائی انگہ کی قبر دوسرے حصے میں واقع ہے جو قدرے خستہ حال دکھائی دیتا ہے ۔مقبرے کے اندر جا بجا لکھی ہوئی قرآنی آیات آج بھی واضح طور پر پڑھی جاسکتی ہیں تاہم یہاں اب سیاحوں کی آمد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اِس حوالے سے سیکرٹری ٹورازم پنجاب احسان بھٹہ کا کہنا ہے حکومت بتدریج تمام تاریخی مقامات کی بحالی کے منصوبے پر عمل پیرا ہے ،مقبرے کے ایک حصے کو بہتر بنایا گیا جبکہ دوسرے حصے پر بھی جلد کام شروع کردیا جائے گا۔