کپاس کا 50لاکھ گانٹھ تک آنا قومی المیہ،ڈاکٹر جسومل
ملتان (لیڈی رپورٹر)پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن(پی سی جی اے ) کے چیئرمین ڈاکٹر جسومل نے کہا ہے کہ کپاس کی پیداوار ڈیڑھ کروڑ گانٹھ سے کم ہو کر 50 لاکھ گانٹھ تک آجانا قومی المیہ ہے ۔
100 فیصد سے زائد ٹیکس دینے والی جننگ انڈسٹری کیسے چل سکتی ہے ؟جنوبی پنجاب کا خطہ بہترین کپاس پیدا کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور تھا۔آج جنوبی پنجاب میں 75 فیصد سے زائد جننگ فیکٹریاں بند ہیں۔کپاس ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جسے ایک سازش اور منصوبہ بندی کے تحت ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جا رہا ہے ۔کپاس کی بحالی و بقاء کی جنگ لڑنا ہوگی۔زراعت پر مبنی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچا دی گئی ہے ۔کاٹن کراپ وائٹ گولڈ ہے ۔ ناقص منصوبہ بندی کہ باعث ملک وائٹ گولڈ کے ثمرات سے محروم ہے ۔ ملک کی 70 فیصد دیہی آبادی کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے ۔پی سی جی اے ہاؤس ملتان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پی سی جی اے نے کہا کہ کہ یہ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی کپاس کے مختلف مراحل پر ٹیکسوں کا بوجھ ہے۔ جو مجموعی طور پر 100 فیصد سے زائد بنتا ہے جبکہ روئی اور دھاگے کی امپورٹ پر کوئی ٹیکس نہیں ہے ۔ٹیکسوں کا بوجھ براہ راست کسانوں پر منتقل ہونے سے کسان کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی ہے ۔