پاکستان کا فلسطین اور مشرق وسطیٰ میں قیام امن کیلئے 5 نکاتی منصوبہ پیش

اسلام آباد: (ویب ڈیسک) پاکستان نے فلسطین اور مشرق وسطیٰ میں قیام امن کیلئے 5 نکاتی قابل عمل منصوبہ پیش کر دیا۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے آئی پی آئی کانفرنس کے دوران فلسطین اور مشرق وسطی میں امن کے لئے5 نکاتی قابل عمل منصوبہ پیش کیا، کانفرنس سے اپنے کلیدی خطاب میں انہوں نے کہا کہ پہلا قدم عرب ممالک اور او آئی سی کی 11 نومبر کو ہنگامی کانفرنس منعقد ہونی چاہئے۔

مشاہد حسین نے کہا کہ کانفرنس میں فلسطینی عوام کی مشکلات کو کم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں اور قیادت کرتے ہوئے ایک عالمی رہنماؤں کا وفد تشکیل دیا جائے جس میں گلوبل ساؤتھ اور یورپ کے رہنماؤں کے ساتھ سعودی عرب، پاکستان، ترکیہ، انڈونیشیا، ملائیشیا، جنوبی افریقہ، الجزائر اور برازیل، نیز ناروے اور آئرلینڈ کے وزرائے اعظم شامل ہوں، کیونکہ انہوں نے ریاست فلسطین کو تسلیم کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ: اسرائیلی فوج کا کمال عدوان ہسپتال پر پھر دھاوا، تازہ حملوں میں 27 فلسطینی شہید

انہوں نے مزید کہاکہ وفد فوراً واشنگٹن جائے اور منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کرے اور نئے امریکی صدر پر زور دے کہ وہ امریکہ کی یکطرفہ اسرائیل کی کھلی حمایت کی پالیسی کو واپس لیں، فوری طور پر جنگ بندی کروائیں، انسانی امداد فراہم کریں اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے ذریعے دیرپا امن کے لئے اقدامات کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ ترکیہ، پاکستان اور انڈونیشیا کے پاس مضبوط بحریہ ہے، ان ممالک کو ایک مشترکہ بحری انسانی امن قافلہ تشکیل دینا چاہئے جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اجازت لے کر اسرائیلی ناکہ بندی کو توڑنے کے لئے غزہ کی مدد کرے۔

اس سے مظلوم فلسطینی عوام کو ایک طاقتور اور مثبت پیغام جائے گا کہ مسلم امہ ایک بے بس ہستی نہیں بلکہ اس میں ٹھوس اقدامات کرنے کا عزم اور سیاسی بصیرت موجود ہے۔

مشاہد حسین نے تیسرے حل کے متعلق صدر اردگان اور ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر کی جانب سے 2019ء میں مسلم امہ کے نقطہ نظر کو نظریات اور بیانیوں کی جنگ میں فروغ دینے کے لئے ایک عالمی میڈیا کے قیام کاتذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ اقدام اٹھانے کا بالکل مناسب وقت اور موقع ہے کیونکہ غزہ نسل کشی نے ثابت کر دیا ہے کہ مغربی میڈیا اس موجودہ بحران میں کس قدر متعصب اور یکطرفہ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کے جنوبی لبنان اور بیروت ایئرپورٹ کے اطراف میں حملے، متعدد افراد جاں بحق

انہوں نے مزیدکہا کہ صحافی، سکالرز، دانشور، تعلیمی ماہرین اور تھنک ٹینکس نظریات کی جنگ میں طاقتور ہتھیار ثابت ہو سکتے ہیں جو سچائی اور حقائق پر مبنی بیانیے تخلیق کر کے پیش کریں اور گلوبل ساتھ بالعموم اور مسلم دنیا بالخصوص عوامی جذبات جیساکہ فلسطین، کشمیر، اسلاموفوبیا اور روہنگھیا جیسے مسائل کی ترجمانی کریں اور متبادل ابھرتے ہوئے منصفانہ عالمی نظام کے لیے راہ ہموار کرنے میں مدد کریں۔

چوتھے منصوبے بارے بتایاکہ او آئی سی فوری طور پر ایک فلسطین تعمیر نو فنڈ قائم کرے تاکہ غزہ اور لبنان کے تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو کی جا سکے۔

پانچواں حل یہ ہے کہ ایک نیورمبرگ طرز کا بین الاقوامی جنگی جرائم کا ٹربیونل قائم کیا جائے جس کے دو مقاصد ہوں (الف) فلسطین اور لبنان میں نسل کشی کے متاثرین کے لیے جنگی معاوضے کا فنڈ قائم کرنا، (ب) دنیا بھر سے ماہر ججوں اور وکلا کا ایک عالمی گروپ تشکیل دینا جو اسرائیلی سیاسی اور عسکری رہنماؤں کو انسانیت کے خلاف جرائم اور 7 اکتوبر 2023 کے بعد فلسطین، لبنان، ایران، عراق اور شام کے خلاف کیے گئے جنگی جرائم کے لیے ذمہ دار ٹھہرا سکے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فورسز کے حملے تھم نہ سکے، 4 بچوں سمیت مزید 20 فلسطینی شہید

مشاہد حسین نے مزید کہاکہ او آئی سی نے مسلم عوام کے درمیان اپنی ساکھ کھو دی ہے کیونکہ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جو مفلوج ہو چکا ہے اور بحران کے وقت کارروائی سے قاصر ہے، انہوں نے مزید کہا کہ مسلم ممالک کے پاس دولت ہے مگر اثر و رسوخ نہیں۔

آخر میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے او آئی سی سربراہی اجلاس کے میزبان سعودی عرب سے اپیل کی کہ وہ شاہ فیصل شہید کی تقلید کرے اور شاہ فیصل شہید کو مسلم دنیا کے عظیم رہنما کے طور پر سراہا جو جرات مند، باہمت اور فلسطین کے لئے اقدامات کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں