"SBA" (space) message & send to 7575

The art of come back

دنیا کی سب سے بڑی اسٹیبلشمنٹ کو ایک اکیلے آدمی نے شکست دے دی۔ جی ہاں‘ آپ درست سمجھے‘ ایک یکا و تنہا شخص۔ پہلے سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے جس کے جیتے ہوئے الیکشن کو شکست میں تبدیل کیا گیا۔ طاقت کے مراکز کے خلاف اس کے حامیوں کی جدوجہد پر دہشت گردی کا لیبل لگایا گیا۔ اس پر اس کے اپنے ملک میں کمیٹی کے نلکے کی طرح نہ ختم ہونے والے مقدمات کا سیلاب لایا گیا۔ کریمنل چارج‘ فیلونی چارج‘ کمرشل ڈیلنگ چارج سمیت اَن گنت مقدمات میں کارروائیاں شروع کرائی گئیں۔ وہ مسلسل چار سال تک اِدھر سے اُدھر‘ ایک ریاست سے دوسری ریاست میں مقدمات بھگتنے کے لیے دوڑتا رہا اور ساتھ ساتھ کہتا رہا کہ میں اپنے لوگوں کو مافیا ز کے شکنجے سے آزاد کرا کر رہوں گا۔ اس کے ملک کا مین سٹریم میڈیا آٹھ سال کے لمبے عرصے تک مسلسل اسی کو لعن طعن کا نشانہ بناتا چلا گیا۔ اسے جنونی‘ تقسیم پسند‘ اَنا پرست اور انتہا پسند کے لقب دیے گئے۔ متنازع الیکشن کے چار سال بعد نیا انتخاب قریب آیا تو اس کے ملک کی تین ریاستوں کی سپریم کورٹس نے اس کا نام ''بیلٹ پیپرز‘‘ پر چھاپنے سے منع کر دیا۔ چوتھی ریاست میں ایک فوجداری عدالت نے اس کے خلاف مقدمہ چلایا اور جیوری کے ذریعے اُسے Convictکر دیا۔ لیکن اس عدالت کی خاتون فاضل جج نے اپنے ملک کے کروڑوں ووٹرز کے اجتماعی شعور پر بے لاگ اعتماد کا اظہار کیا؛ چنانچہ جج صاحبہ نے Sentencingکوالیکشن کے نتائج آنے تک التوا میں رکھ دیا۔
اب آئیے اس کہانی کا دوسرا رپورٹ شدہ باب دیکھ لیتے ہیں‘ جو ڈونلڈ ٹرمپ کے وطن کے دارالحکومت سے 11 ہزار 372 کلو میٹر دور جنوب مشرقی ایشیا کے ایک شہر میں لکھا گیا۔ جہاں ایک نو آموز سیاسی گھرانے کے وسائل پر سونے کا چمچ منہ میں لے کر سیاست کرنے والا نوجوان‘ سابق امریکی صدر کو‘ جو تب اپوزیشن لیڈر بھی تھے‘ جمہوریت سے ناواقف‘ قانون کا آؤٹ لاء‘ اداروں سے بالاتر اور عوام کی نبض سے دور‘ سیاسی شعور سے محروم شخص قرار دیتا ہے۔ آپ پھر درست سمجھے‘ میں پاکستان کے شہرِ اقتدار کی بات کر رہا ہوں‘ لیکن عمران خان کا ذکر نہیں کر رہا بلکہ بلاول صاحب کا وڈیو کلپ سُن رہا ہوں جس میں وہ برسرِاقتدار جوبائیڈن کو خوش کرنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف سیاسی شعور سے محروم شخص ہونے کا فتویٰ صادر فرما رہے ہیں۔ اسی دوران میری نظر ٹویٹر (ایکس) پر پڑ گئی جہاں پاکستان کے موجودہ وزیر دفاع‘ امریکہ کے اپوزیشن لیڈر ڈونلڈ ٹرمپ کی نالائقی پر اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر تبصرہ کر رہے ہیں۔ پہلی ٹویٹ میں وزیر دفاع نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر لکھا: ''ٹرمپ اور عمران خان کی قربت فطری امر ہے‘‘۔ دوسری ٹویٹ مقتدرہ کے حوالے سے شروع ہوئی اور وزیر دفاع یہ دور کی کوڑی لائے: ''خیال تھا یہ بیماری صرف عمران خان کو ہے مگر لگتا ہے یہ قدر ٹرمپ کے ساتھ مشترک ہے اسی لیے دونوں میں بڑا سلوک تھا‘‘۔ آپ ان دونوں ٹویٹس کو طعنہ زنی بھی کہہ سکتے ہیں اور ایک مزاحیہ بڑھک بھی‘ کیونکہ ان دنوں رجیم چینج والے وزیر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اپنی ٹویٹس کو ڈیلیٹ کرتے پائے جاتے ہیں۔ پس ثابت ہوا واقعی شیر تو اصلی ہیں۔ ساتھ ہی پنجاب کی خاتون وزیراعلیٰ کے خطاب کا ایک کلپ امریکہ میں مقیم اوورسیز پاکستانی ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی مستقل سوشل میڈیا ٹیم کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔ یہ کلپ پاکستان میں بھی بڑا وائرل ہوا ہے۔ خاتون وزیراعلیٰ نے عالمی سیاسی لیڈروں کا موازنہ ان الفاظ میں کیا: ''ٹرمپ جب ہارا اور جاتے جاتے اس نے ملک پر جو حملہ کیا‘ آج آپ نے جو دیکھا وہ اس کا رپیٹ تھا۔ ''پاکستانی ٹرمپ‘‘ نے جاتے جاتے اپنے آپ کو بچانے کی پوری کوشش کی لیکن میں اسے کہنا چاہتی ہوں جو چند روز تم کو ملے ہیں اچھے سے پیکنگ کرنا‘ پرائم منسٹر ہاؤس میں کوئی چیز بھول کر نہ جانا‘‘۔
شہباز سپیڈ کیبنٹ کے وزیر منصوبہ بندی نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف تین ٹویٹس کی سیریز لکھ ڈالی تھی‘ ان ٹویٹس میں وزیر موصوف کے الفاظ یہ ہیں: ''ٹرمپ‘ مودی اور عمران خان ایک ہی سانچے سے بنے ہیں۔ تینوں نے نفرت پر مبنی حلقہ بنا کر اور اپنے معاشروں کو پولرائز کرکے اپنے اپنے ممالک میں جمہوریت کو نقصان پہنچایا‘‘۔ ''ٹرمپ کے پیروکار عمران خان کے100 فیصد کزن ہیں۔ ٹرمپ ازم=عمرانیت‘‘۔ ''ہمارے پاس پاکستان میں بھی ایک ٹرمپ ہے‘ اسے جلد باہر کا راستہ دکھا دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ! ٹرمپ کی شکست دنیا کے ڈیما گوگس اور آمروں کے لیے ایک دھچکا ہے‘‘۔
اس تقابلی جائزے کا مقصد صرف اتنا سا ہے کہ امریکہ کے 45ویں صدر کے 47واں صدر منتخب ہونے میں کون سے سبق سیکھنے کے قابل ہیں۔
امریکی الیکشن کا پہلا سبق: یہ سبق امریکہ کے نظامِ انصاف کے بارے میں ہے۔ آج امریکہ اپنی جمہوریت کی فتح کا جو جشن منا رہا ہے اُس کا سہرا نیویارک سپریم کورٹ کے جج Justice Juan Merchanکے سر جاتا ہے‘ جنہیں ڈیموکریٹک پارٹی نے نامزد کیا تھا اور جج بننے سے پہلے انہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کو چندہ بھی دیا۔ لیکن ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف کھلے جھکاؤ کے باوجود اپنے تعصب کو اپنے عدالتی فیصلے پر اثر انداز نہیں ہونے دیا۔ دو ماہ پہلے اس جج نے ٹرمپ کے خلاف فوجداری کارروائی روکتے ہوئے لکھا: ''اس مرحلے پر ٹرمپ کو سزا دینے سے امریکی لوگوں کے ووٹ کا حق متاثر ہو سکتا ہے‘‘۔ لہٰذا کیس کو انتخابات کے بعد تک مؤخر کر دیا گیا۔ دوسری جانب ایک سابق پاکستانی جج نے پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت سے انتخابی نشان چھین لیا جس سے لاکھوں ووٹرز کو مرضی کا ووٹ دینے کے حق سے محروم کیا گیا۔ تاریخ اور مؤرخین دونوں ججوں کے ساتھ بہت مختلف سلوک کریں گے۔ ایک کا تعلق Hall of Justiceسے ہوگا اور دوسرے کا تاریخ کے کوڑے دان سے۔
امریکی الیکشن کا دوسرا سبق: صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تاریخ ساز واپسی کو Art of come backکی انتہا قرار دیا جا سکتا ہے۔ اتنی مکمل اور جاندار فتح نے امریکی قوم سمیت دنیا کے عام آدمی کو بہت طاقتور پیغام بھیجا۔ جمہوریت کہیں بھی ہو‘ اسے طاقت سے مردہ نہیں بنایا جا سکتا۔ سچے جمہوری لیڈر اور ان کے ووٹر متحرک رہ کرجبر کا منہ موڑ سکتے ہیں۔ الیکشن 2024ء میں امریکی ووٹروں نے آزادی‘ امن اور خوشحالی کے نعرے کو ووٹ دیا۔ صدر ٹرمپ ایک لمحے کے لیے بھی نہ دبکے اور نہ اپنے ایجنڈے سے منہ موڑا۔
امریکی الیکشن میں کملا ہیرس کی حمایت کے لیے ہالی وُڈ فلم اور میوزک انڈسٹری کے بڑے بڑے فنکاروں کی مسلسل پریڈ کرائی گئی۔ ٹرمپ کی واپسی کا سفر اس کے اپنے بقول مسلم ووٹرز‘ عرب ووٹرز سمیت 14 ملین نوجوان ووٹرز نے ممکن بنایا۔
کارما...! خود نہیں ہوتا اسے برپا کرنا پڑتا ہے۔ امریکی ووٹرز نے دنیا کو یہی سب سے بڑا سبق سکھایا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں