غزہ میں والدین بہن بھائی کھودینے والے کئی لاوارث زخمی بچے

غزہ میں والدین بہن بھائی کھودینے والے کئی لاوارث زخمی بچے

غزہ سٹی (مانیٹرنگ ڈیسک)غزہ کی پٹی میں کام کرنیوالا طبی عملہ جنگ کے متاثرین کی ایک قسم کیلئے خاص مخفف ڈبلیو سی این ایس ایف بولتا ہے۔۔۔

 جس سے مطلب وہ زخمی بچے جن کا کوئی والی وارث نہیں ہے ۔ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی ڈاکٹر تانیا حسن نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ یہ مخفف اس ہولناک صورتحال کی عکاسی کرتا ہے جس کا غزہ کے کئی بچوں کو سامنا ہے ،والدین، بہن بھائیوں، دادا دادی کی موت نے ان کی زندگیاں ایک سیکنڈ میں بدل دیں، ان کیلئے حالات پہلے جیسے کبھی نہیں ہو سکتے ۔ رپورٹ کے مطابق انہی بچوں میں ایک تین سالہ احمد شاباط ہے ، بیت حانون کا رہائشی یہ بچہ زخمی حالت میں انڈونیشن ہسپتال لایا گیا، نومبر کے وسط میں گھر پر بم گرنے سے احمد کے والدین اور بڑا بھائی جاں بحق ہو گئے تھے ، 2 سالہ چھوٹا بھائی عمر بچ گیا ، ماموں کی وجہ سے دونوں بھائی دوبارہ مل گئے ، دونوں یتیم اور بے گھر بھائیوں کو اسرائیلی شیلنگ سے بچانے کیلئے ان کا ماموں ابراہیم اپنے ساتھ شیخ رضوان شہر لے گیا، مگر اسرائیلی حملوں کی وجہ سے انہیں یہ شہر بھی چھوڑنا پڑا، وہ نصیرات کیمپ میں اقوام متحدہ کے سکول منتقل ہو گئے ۔

اس پناہ گاہ میں بھی انہیں تباہ کن اسرائیلی حملوں کا نشانہ بننا پڑا، احمد نے دونوں ٹانگیں گنوا دیں، احمد کا ایک عزیز شہید ہو گیا۔ احمد کا ماموں ابراہیم اپنے اور بہن کے بچوں کیساتھ ابھی تک بے گھر ہے ، احمد کو علاج کیلئے غزہ سے باہر بھیجنا چاہتا ہے ۔ ابراہیم کا کہناہے کہ احمد فٹ بالر بننا چاہتا تھا۔ احمد کی طرح2 سالہ مونا ایلوان بھی ڈبلیو سی این ایس ایف ہے ، اسے بھی انڈونیشن ہسپتال لے جایا گیا، وہ اکثر اپنی ماں کو پکارتی تھی جوکہ شہید ہو چکی ہے ، مونا کو شمالی غزہ میں ملبے سے نکالا گیا، اس کے والدین ، بھائی اور دادا حملے میں جاں بحق ہو گئے تھے ، حملے میں مونا کی ایک آنکھ زخمی ہوئی، اور جبڑا ٹوٹ گیا تھا،اسے ایک دوسرے ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں اسے اپنی خالہ مل گئی، خالہ نے بتایا کہ مونا کی بڑی بہنیں بھی ہیں جوکہ شمالی غزہ میں ہیں، انہیں جنوبی غزہ لانا ابھی ممکن نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں