سریلے گلوکار اخلاق احمد کی برسی خاموشی سے گزر گئی

سریلے گلوکار اخلاق احمد کی برسی خاموشی سے گزر گئی

وزرات ثقافت سمیت کسی ثقافتی ادارے نے انہیں یاد نہیں رکھا، اداروں کی بے حسی نے مرحوم فنکاروں سے محبت کا پول کھول دیا اخلاق کو فلم ’’مٹی کے پتلے ‘‘کے گیت ’’یہ ٹوٹے کھلونے ‘‘سے شہرت ملی،وہ مسعود رانا کا متبادل اور ان کے زوال کا سبب بھی بنے

کراچی(رپورٹ :مرزا افتخار بیگ)انتہائی سریلے، مدھر اور سدابہار گیتوں کو گانے والے گلوکار اخلاق احمد کی 14ویں برسی خاموشی سے گزر گئی۔اس مقبول ترین گلوکار کی 14ویں برسی کے موقع پر وزرات ثقافت ، سماجی ،ثقافتی اداروں کی جانب سے ان کی یاد میں کسی تقریب کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی، پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس، صوبائی وزرات ثقافت اور دیگر اداروں کی بے حسی نے مرحوم فنکاروں سے محبت کا پول کھول دیا۔فنکاروں، موسیقاروں اور دیگر شخصیات نے سرکاری و نجی اداروں کی جانب سے اخلاق احمد کی 14ویں برسی پر کوئی تقریب نہ منانے پر افسوس کا اظہار کیا ہے ۔ملک اور بیرون ممالک گائیکی میں منفرد مقام رکھنے والے نگار ایوارڈ یافتہ گلوکار اخلاق احمد کا تعلق کراچی سے تھا۔ وہ 8 اگست 1946 ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ، 60 کی دہائی میں کراچی کے اسٹیج گروپ سے وابستہ ہوگئے تھے جس میں ان کے ہمراہ گلوکار مسعود رانا اور اداکار ندیم بھی تھے۔یہ تینوں فنکار ان دنوں کراچی میں ہونے والے ورائٹی شوز اور میوزیکل فنکشنز میں گلوکار محمد رفیع کے گیت گاکر بے حد مقبول ہوگئے تھے۔تینوں محمد رفیع کے مداح تھے۔مسعود رانا تو 62 ء ہی میں صف اول کے گلوکار بن گئے تھے، انہیں فلموں میں گانے مل رہے تھے لیکن ندیم اور اخلاق احمد کو اچھی خاصی جدوجہد کر نی پڑی۔انہوں نے ایک طویل جدوجہد کے بعد 1973ء میں موسیقار لال محمد اقبال کی موسیقی میں نغمہ نگار فیاض ہاشمی کا گیت فلم ’’پازیب ‘‘کے لیے گایا۔فلمی گلوکار کے طور پر کامیڈی گیت گایا جو اداکار قوی پر فلمایا گیا تھا جس کے بول ’’او ماما میرے او چاچا میرے‘‘تھے۔یہ گیت فلم تک محدود رہا ۔دوسری فلم ’’بادل اور بجلی ‘‘تھی جس کے موسیقار سہیل رعنا تھے۔ اخلاق احمد کو اصل شہر ت اپنے دوست ندیم کی ذاتی فلم ’’مٹی کے پتلے ‘‘کے گیت ’’یہ ٹوٹے کھلونے ، یہ مٹی کے پتلے ، یہ بھی تو انسان ہیں‘‘ سے ملی یہ گیت اخلاق احمد نے بڑے سریلے انداز میں اونچے سروں میں گایا تھا جو عام طور پر گلوکار مسعود رانا کا طرہ امتیاز تھا۔لیکن اخلاق احمد ، مسعود رانا کا نعم البدل ثابت ہوئے تھے اور درحقیقت میں ان کے زوال کا سبب بھی بنے۔ انہوں نے اداکار و ہدایت کار رحمان کی فلم ’’چاہت ‘‘کے گیت ’’ساون آئے ساون جائے ‘‘اور دیگر فلموں ’’بندش ،آئینہ، دو ساتھی، امنگ، پہچان، زبیدہ ، راستے کا پتھر، لیلیٰ مجنوں، صبح کا تارا، گھونگھٹ ، سنگم ، بلندی، دیوانے دو، مس بنکاک، آدمی، پرنس، محبت اور مہنگائی، مسافر، انوکھی، سچائی، موم کی گڑیا، سیاں اناڑی، داغ، دیکھا جائے گا، سازش،جیو اور جینے دو،قاتل کی تلاش، سمیت کل 86فلموں میں 117 گیت گائے جن میں صرف ایک پنجابی گیت تھا اور باقی اردو گیت تھے۔ان میں 57 گیت سولو جب کہ 60 دو گانے تھے۔وہ صرف تین فلموں میں چار چار گیت گاسکے تھے۔ 1998ء میں فلم ’’نکاح ‘‘کے لیے ان کا گا یا ہوا گیت ’’یہ دل دیوانہ ہے ‘‘ ان کی زندگی کا آخری گیت ثابت ہوا۔انہوں نے اردو فلمی گیتوں کے شائقین میں بڑی مقبولیت حاصل کی ، سب سے زیادہ گانے ناہید اختر اور نیرہ نور کے ساتھ گائے ، اپنے دور کے سب ہی اہم گلوکاروں کے ساتھ گایا لیکن افسوس انہیں شہنشاہ غزل مہدی حسن کے ساتھ کوئی گیت گانے کا موقع نہ مل سکا۔ ملک کے 19 موسیقار ان کی سریلی آواز کے جادو سے فیضیاب ہوسکے۔سب سے زیادہ موسیقار ایم اشرف نے ان کی گائیکی سے فائدہ اٹھایا جن کے ساتھ 36 گیت گائے لیکن ان کی جوڑی موسیقار روبن گھوش کے ساتھ مقبول رہی، ان کے سد ابہار مقبول ترین 25 گیتوں کی موسیقی روبن گھوش نے ہی ترتیب دی ۔اخلاق احمد اپنے ہم عصر موسیقار وں میں خواجہ خورشید انور کے ساتھ کوئی گیت نہ گاسکے جس کا مرحوم کوبھی افسوس تھا۔ اخلاق احمد اپنی شریک حیات کو سونا دے سکا نہ چاندی یا کوئی محل حتیٰ کہ دکھ سکھ کا ساتھی بننے کا وعدہ بھی پورا نہ کرسکا اور عین شباب کے عالم میں دار فانی سے کوچ کرگیا تھا۔14سال قبل جب لندن میں اخلاق احمد کا انتقال ہوا تو اس کے اپنوں کے پاس اتنی مالی استطاعت بھی نہیں تھی کہ اس کی میت اپنے وطن واپس لے کر آتے۔1992ء میں اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے اخلاق احمد کو سرکاری خرچ پر لندن میں علاج کے لیے 25 لاکھ روپے کی خطیر رقم دی تھی۔ علاوہ ازیں دیگر مخیر حضرات نے بھی ان کی مالی مدد کی ۔ لندن میں ان کے جسم کا خون ہر تیسرے ہفتے بدلا جاتا تھا ۔خون کے سرطان میں مبتلا53 سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد یہ سریلا گلوکار موت کی جنگ ہار کر 4اگست 1999 ء کو اپنے سریلے گیتو ں کا سدا بہار تحفہ دے کر ہمیشہ کے لیے دار فانی سے کوچ کرگیا۔ اس مشکل گھڑی میں ان کی وفا شعار بیوی (جو ایئر ہوسٹس تھیں)نے آخری لمحات تک ان کی خدمت کی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں