ایف اے ٹی ایف کی مہلت ، شادیانوں کے بجائے ایکشن

ایف اے ٹی ایف کی مہلت ، شادیانوں کے بجائے ایکشن

پاکستان اگرچہ ناگزیر صورتحال سے مزید3ماہ کیلئے بچ گیا ہے ۔اختلافات اور کچھ اہم ممالک کی مخالفت کے سبب ایف اے ٹی ایف(منی لانڈرنگ اورٹیرر فنانسنگ کی روک تھام کے لئے ایک 37ملکی عالمی ادارہ )نے معاملات کی درستگی کے لئے 18جون تک پاکستان کو نوٹس پررکھ لیا ہے

(امتیاز گل) اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کو امریکہ اوراہم مغربی ممالک کے مطالبات کو پورا کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ وہ چاہتے ہیں ہم اپنے مالیاتی میکنزم کو عالمی معیارکے مطابق استوار کریں تاکہ ٹیررفنانسنگ کی روک تھام ہو لیکن ان لوگوں کیلئے بلاشبہ بری خبر تھی جو دن بھر پاکستان کو گرے لسٹ میں دوبارہ شامل کئے جانے کا ڈھنڈورا پیٹتے رہے ۔لیکن ایف اے ٹی ایف کے 23فروری کے اختتامی اجلاس کے اعلامیے میں پاکستان کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اجلاس کے بعد واچ لسٹ میں شامل کئے گئے جن ممالک کا اعلان کیاگیا ان میں ایتھوپیا، عراق، سربیا، سری لنکا، شام، ٹرینیڈاڈوٹوباگو، تیونس، وناتو، شمالی کوریا اور یمن شامل تھے ۔ایف اے ٹی ایف کی ساری کارروائی اور حالات کا دوزاویوں سے تجزیہ کیا جاسکتا ہے ۔(1)جیو پولیٹیکل اور (2) اہم معاملات پر کمزور اورمتذبذب ردعمل۔ بلا شبہ علاقائی سیاسی صورتحال جو صدر ٹرمپ کی گزشتہ سال اعلان کردہ افغان پالیسی سے پیدا ہوئی وہ اس دباؤ کا سبب بن رہی ہے ۔22اور 23فروری کو بھارتی میڈیا سے جاری ہونے والی خبروں سے صورتحال مزید واضح ہوجاتی ہے ۔ جس میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کی معاونت کرنے والے مشتبہ ممالک کی فہرست(گرے لسٹ) میں شامل کیا جارہا ہے ۔حتیٰ کہ عالمی خبررساں ایجنسی رائٹرز تو پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کئے جانے کے معاملے میں بھارتی میڈیا سے بھی بازی لے گئی۔ اس پس منظر میں پیرس اجلاس ایک منقسم فورم کے طور پر سامنے آیا اور مغرب کے بارے میں تاثرات کو مزید تقویت ملی ۔ پاکستان میں اسے ایسے انداز میں دیکھا گیا کہ پاکستان مخالف قرارداد ان ممالک نے پیش کی جو کھلے عام چین مخالف سرگرم ہیں یعنی امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس،آسٹریلیا اور بھارت، ان ممالک میں بیشتر اس وقت کا بھارت کا سکھایا ہوا گیت گارہے ہیں اور یہی بیانیہ ہے ۔ سماجی وسیاسی منظر اور نظام کی کمزوریوں سے آگاہی کے باوجود اندرونی گورننس اور خارجہ پالیسی کی ناکامی کے نتائج کے ساتھ ساتھ مغرب کی علاقائی مہم(یعنی پاکستان کے ساتھ افغانستان میں شراکت داری اور دہشتگردوں کیخلاف منصوبے ) یہ تمام عوامل ایک ساتھ جمع ہوگئے ہیں جسے مجبوری یا دباؤ کی پالیسی کہا جاسکتا ہے ۔قومی منظر نامہ: ماسکو سے 21فروری کو وزیرخارجہ خواجہ آصف کے ٹویٹ نے واضح کردیا کہ پاکستانی رہنماؤں کو حساس معاملات کی کتنی سوجھ بوجھ ہے ۔یہ امر اس بات کا غماز ہے کہ ہمارے رہنماؤں کے موقع سے فائدہ اٹھانے کے رحجان کی کوئی حدودقیود نہیں ہے ۔پاکستان ایف اے ٹی ایف کا رکن نہیں ہے اس لئے وہاں جاری صورتحال سے آگاہ نہ تھا۔دوسرا یہ کہ وہاں تمام غوروخوض اور بحث مباحثے خفیہ تھے لیکن بھارتی ذرائع نے میڈیا کو تمام امکانات کے بارے میں ایسا تاثر دیا کہ جیسے ان پر حتمی فیصلہ ہوچکا ہے اور اس طرح کانفرنس کو خفیہ رکھے جانے کی شق کی خلاف ورزی کی گئی ۔ تمام فیصلے خفیہ ہیں تاوقتیکہ کسی مجاز عہدیدار کی طرف سے اس کا اعلان نہ کردیا جائے ۔ لیکن سوچ سے عاری وزیرخارجہ نے بھارتی حکام سے سبقت لے جانے کی کوشش میں سفارتکاروں اور غیر ملکی دوستوں کی طرف سے کئے گئے اچھے کام کا اس وقت بیڑا غرق کردیا جب ٹویٹر پر 3ماہ کی مہلت کااعلان کیا گیا۔ایسا لگتا ہے کہ اس اقدام نے ایف اے ٹی ایف میں ہمارے دوستوں کو ناراض کردیا۔ دوستوں کی طرف سے مخالفین کی سخت محنت اور کوششوں کو ناکام بنانے کو پاکستان کی طرف سے معاملات کو درست کرنے کا ایک موقع تصور کیا جانا چاہئے ۔اگر یہ دوست نہ ہوتے تو پاکستان کو ایک بار پھر اپنی بے عملی، سستی اور کمزورقوت فیصلہ کے نتائج بھگتنا پڑتے ۔ بیرونی عناصر صرف ان کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔عارضی ریلیف ایک اشارہ ہے ان تمام متعلقہ فریقین کے لئے جن کے ہاتھ میں فیصلہ سازی ہے یعنی پی ایم ہاؤس اور جی ایچ کیو تاکہ واضح اقدامات کرکے معاملات درست کرلئے جائیں۔اسرائیل یا بھارت تمام تر برے ریکارڈ کے باوجودہمیشہ امریکی مدد سے بچ جائیں گے ۔یہ سب تزویراتی اور جیواکنامک مفادات کے معاملات ہیں۔ایک بات واضح ہے کہ چین جس کے دنیا بھرمیں ٹریلین ڈالرز کے اقتصادی مفادات ہیں زیادہ دیر اپنی گردن نہیں پھنسائے گا اور نہ ہی روس اور ترکی کی سپورٹ مستقل رہے گی۔ سی پیک نے پاکستان کی سول اور فوجی قیادت میں بہت زیادہ احساس وابستگی پیدا کردی ہے لیکن انہیں یہ احساس نہیں کہ چین کے دنیا بھرمیں مفادات بہت زیادہ ہیں اور امریکہ میں بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے ۔ سعودی عرب اور چین نے ہمیں3ماہ کی مہلت دلوا دی ہے تاہم پاکستان کے ارباب اختیار کو اس امرکا ادراک ہونا چاہئے کہ اکثر و بیشتر جیو پولیٹیکل معاملات باہمی تعلقات پر غالب آجاتے ہیں۔یہ معاملات اس بات کا بھی تعین کرتے ہیں کہ عالمی اثرات کے حامل ایشوز پر کوئی خود کو کتنا پھیلا سکتا ہے چند ایک مثالوں کے سوا اس قسم کی حمایت مستقل ہونے کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ اس لئے محترم دوست مشرف زیدی کے الفاظ دہراتا ہوں کہ پاکستانیوں کو ترکی،چین اور سعودی حمایت پر شادیانے بجانے کے بجائے خود سے سوال کرنا چاہئے کہ ہم ان عظیم ممالک کو اس صورتحال سے دو چار کیوں کرتے ہیں۔ پاکستان کو بوجھ کے بجائے چراغ راہ ہونا چاہئے ۔یہ شرم کرنے کا وقت ہے شادیانے بجانے کا نہیں۔ ایک دوسرے سے جڑی دنیا جہاں اصول دائمی نہیں ہیں وہاں3ماہ کی مہلت نے دباؤ کی پالیسی کے محدودات کو بھی آشکار کردیا ہے ۔گرے لسٹ کے سائے مختلف مفادات کے ساتھ عالمی منظر نامے پر چھائے ہوئے ہیں۔ ،پاکستانی رہنماؤں کے لئے سبق :جو امور ناگزیر ہوں ان سے اپنا دامن نہ چھڑایا جائے ۔اس وقت کا انتظار نہ کیا جائے جب بحران ہمیں آپکڑے ۔بہانے بازی نہ کی جائے ۔اپنی ناکامیوں کا الزام بیرونی جیو پولیٹیکل عوامل پر دھرنا وجود کو لاحق خطرات سے نمٹنے کا درست طریقہ نہیں ہے ۔ہمیں ایسے فعال،قابل اعتماد اور بہتر حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ جس سے ہمارے دوستوں پر غیر ضروری دباؤ نہ آئے اور اسے حل کرنے کی ضرورت ہے جس سے ہمارے بارے میں عالمی برادری کے ایک ترقی پسند، دیانتدار اور ذمہ دار رکن کا تاثر پیدا ہو۔کوئی بھی ملک ہمیشہ آپ کے ساتھ کھڑا نہیں ہوگا۔اس لئے اپنے دوستوں کو آزمائش میں نہ ڈالیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں