چین اور سعودی عرب کی بیساکھیاں , آخر کب تک ؟
عالمی سطح پر ٹاسک فورسز کا براہ راست تعلق ریاستوں کی کارکردگی سے ہوتا ہے ۔ سفارت کاری کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہوتی کہ آپ کی کارکردگی کچھ اور ہو، اور بیان کچھ اور کر سکے ۔
(شمشاد احمد خان ) سفارت کاری حقیقت کو درست طریقے سے اجاگر کرنے کا نام ہے ۔ایف اے ٹی ایف نامی ٹاسک فورس کی ذمہ داری دہشت گردی کی فنانسنگ پر نظر رکھنا ہے ، وہ اپنی فہرست مختلف ملکوں کے کردار کو مدنظر رکھ کر بناتی ہے ۔یہ سلسلہ 9/11 کے بعد شروع ہو گیا تھا جب سلامتی کونسل کی قراردادیں منظور ہوئیں ۔ ہم کب تک سعودی عرب اور چین کی بیساکھیوں پر خود کو بچانے کی کوشش کریں گے ، حل یہ ہے کہ جس کی وجہ سے ہم پر تہمت لگ رہی ہے ، اپنے دامن کو اس سے صاف کر لیا جائے ۔ جب تک ہم اپنا دامن پوری طرح صاف نہیں کریں گے ، اس قسم کی پشیمانیوں کا ہمیں سامنا رہے گا۔ دنیا کا ہر مسلمان پاکستانی نہیں ، 9/11 کے سانحہ میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا، اس کے باوجود تمام ملبہ ہم پر ڈالا گیا۔ہماری اپنی سوچ بھی یہی رہتی ہے کہ جیسے 9/11 کے ذمہ دار ہم ہی تھے کیونکہ اسامہ بن لادن افغانستان میں تھا۔ مسلم دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے ، اس کی ہمیں ذمہ داری قبول نہیں کرنی چاہیے ۔ بھارت میں واقعات ہوتے رہتے ہیں،مگر مشرف نے واجپائی کیساتھ ڈائیلاگ کا جو سلسلہ شروع کیا، اس کے اعلامیہ میں مشرف نے کہا کہ آئندہ پاکستانی سرزمین سے بھارت میں کوئی دخل اندازی نہیں ہو گی۔ اس اعلامیہ سے یہ تاثر گیا کہ جیسے 2004سے بھارت میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ، اس میں پاکستان ملوث تھا۔یہ دراصل ہماری ذہنیت ہے جوکہ ہمیں اندر سے گھن کی طرح چاٹ رہی ہے ۔ یہ سوچ کبھی ڈان لیکس کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ، کبھی میڈیا پر بعض اینکر اسی سوچ کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم کبھی نہیں سوچتے کہ جب پاکستان وجود میں آیا، اس وقت ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ اپنا وجود اور سالمیت کیسے برقرار رکھنی ہے ۔ یہ مسئلہ گزشتہ 70سال سے ہماری خارجہ پالیسی کا مرکزی نکتہ ہے ، جس سے ہم نکل نہیں سکے ۔ ایف اے ٹی ایف اجلا س میں چین اور سعودی عرب نے اسلئے حمایت نہیں کی کہ کوئی ملک دوسرے کی خاطر اپنی ساکھ داؤ پر نہیں لگا سکتا۔ جب ہم نے امریکہ کیساتھ اتحاد کیا تھا، تب ہم یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ امریکہ ہر موقع پر ہماری مدد کرے گا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ یہی کچھ ہم نے چین کے بارے میں فرض کر رکھا ہے ۔ مفادات کا تحفظ ہمیں خود کرنا ہے ، چین نے ہماری خاطر کوئی جنگ نہیں لڑنی، بلکہ وہ تو اپنی جنگ بھی نہیں لڑتا۔ سعودی عرب یمن میں اپنی جنگ لڑ رہا ہے ، اس جنگ میں تقریباً گھس چکے تھے ۔ ہم نے کبھی سوچا نہیں کہ ہمیں دوسروں کی جنگیں نہیں لڑنی چاہئیں، کوئی ملک پراکسی جنگ اس طرح نہیں لڑتا جس طرح ہم لڑتے رہے ہیں، جیسے کہ افغانستان کی دونوں پراکسی جنگیں ہم نے لڑیں تھیں۔ آج اپنے وجود کی بقا کی جنگ خود اپنی سرزمین پر لڑ رہے ہیں۔ چین جتنی ہماری مدد کر سکتا ہے ، کررہا ہے ،بہت زیادہ کی ہمیں توقع نہیں کرنی چاہیے ۔ بھارت دنیا میں دہشت گردی کے خلاف سوچ کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے ۔ 2014 کے نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل ہوتا تو ہم بھی اس سوچ کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے نیشنل ایکشن پلان کے دو نکات پر عمل ہو ا جوکہ فوج سے متعلق تھے ، دیگر پر کبھی عمل نہیں ہوا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف کس قدر سنجیدہ ہیں۔ جن 18نکات پر آج تک عمل نہیں ہوا، ان کے بغیر دہشت گردی کو پروان چڑھانے والی سوچ کا خاتمہ نہیں کر سکتے ۔ ان نکات کا براہ راست تعلق حکومت کی کارکردگی سے ہے ، جس میں مایوسی پھیلانے والے ماحول کا خاتمہ سرفہرست ہے ۔ ہماری حکومتوں کی توجہ اپنی کرپشن چھپانے پر ہے ، جبکہ دنیا جانتی ہے کہ کرپٹ ترین ممالک کون سے ہیں، غیر محفوظ ریاستیں کون سی ہیں۔دنیا ہماری دشمن نہیں، مگر بدقسمتی سے ہمارا نام ایسے ملکوں کی فہرستوں میں ٹاپ پر ہے ۔ چین اور سعودی عرب ہمارے امیج کو بہتر نہیں بنا سکتے ، اپنے چہرے کی کالک ہمیں خود ہی صاف کرنی ہے ۔ اپنی بیماریوں کا علاج ہمیں خود کرنا ہے ، جس دن ہم اپنے دم پر کھڑے ہونے کے قابل ہو گئے ، دنیا میں ہمار ا نام خود ہی بن جائے گا۔ اسلامی ملکوں کی اکثریت کا حال بھی پاکستان جیسا ہی ہے ، تما م اسلامی ممالک مغرب کی بیساکھیوں کے محتاج ہیں۔ خارجہ پالیسی میں معیشت سے متعلق نکات چار ہوتے ہیں، جن میں تجارت، سرمایہ کاری، قرضے اور بیرونی امداد ۔ ہماری توجہ آخری 2نکات پر رہی ہے ، پہلے 2پر ہم نے کبھی توجہ نہیں دی۔ سرمایہ کاری کا حال یہ ہے کہ لوگ کارخانے بند کر کے بنگلہ دیش جا رہے ہیں۔ امریکہ کے بعد ہم چین کی مدد پر نظریں ٹکائے ہوئے ہیں۔ میڈیا کو بھی یہاں ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ چین اور سعودی عرب اس حد تک ہماری مدد کریں گے جہاں تک ان کے مفادات انہیں اجازت دیں گے ۔