الیکشن 2018،تاریخ کا اعلان مئی کے آخر ،شیڈول جون کے اوائل میں
فریقین میں اتفا ق رائے نہ ہوا تو الیکشن کمیشن 8جون تک نگران وزیر اعظم کا اعلان کریگا حلقہ بندیوں بارے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی آیا تو الیکشن میں تاخیر ہو سکتی ہے ،رپورٹ
اسلام آباد (الماس حیدر نقوی ، سید ظفر ہاشمی )ملک میں آئند ہ عام انتخابات بروقت ہونے کے امکانات روشن ، غیر معمولی صورتحال کے باوجود آئندہ انتخابات وقت پر ہونگے ،الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیاں 3مئی تک مکمل کر لی جائیں گی، انتخابی فہرستوں کو 24اپریل تک نمٹایا جائے گا،حلقہ بندیوں پر سپریم کورٹ میں غیر معمولی درخواست جانے کی صورت میں اگر حکم امتناعی آتے ہیں تو انتخابات تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں وگرنہ انتخابا ت اپنے وقت پر ہی ہونگے ، آئینی طو رپر وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق رائے کی صورت میں 3جون پارلیمانی کمیٹی میں اتفاق رائے کی صورت میں 6جبکہ الیکشن کمیشن کے پا س معاملہ جانے سے 8جون تک نگران وزیر اعظم کا اعلان سامنے آجائیگا۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان مئی کے آخری ہفتے جبکہ شیڈول کا اعلان جون کے پہلے ہفتے میں متوقع ہے ۔ روزنامہ دنیا کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن تمام تر اعتراضات اپنے مقررہ وقت میں نمٹاتے ہوئے 3مئی تک حتمی فہرست مرتب کر دے گاجس کے بعدسپریم کورٹ ہی واحد فورم ہوگا جو حلقہ بندیوں پر مزید اعتراضات کی سماعت کریگا۔ اگر سپریم کورٹ میں غیر معمولی تعداد میں اعتراضات کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نمٹانے میں تاخیر ہو توانتخابات تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں ، کیونکہ اگر زیادہ تعداد میں اعترضات پر سماعت جاری رہتی ہے تو الیکشن کمیشن کو ریٹرننگ افسران کی تعیناتی اور پولنگ سکیمز کو حتمی شکل دینے میں مشکلات کا سامنا ہوگا ۔ بیلٹ پیپرز کی چھپائی اور تربیت کے حوالے سے الیکشن کمیشن پہلے اپنی حکمت عملی مرتب کر چکا ہے ۔ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلیوں کی مدت 31مئی جبکہ خیبر پختونخوا ،بلوچستان اورسندھ اسمبلیوں کی مدت 28مئی کو ختم ہو رہی ہے ۔وفاق اور پنجاب میں نگران حکومتیں آئینِ پاکستان کی روشنی میں آرٹیکل 224۔اے اور اسی آرٹیکل کی شق 1اور 2کے تحت کی جائے گی ، اس آرٹیکل کے تحت رخصت ہونے والی قومی اسمبلی کے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کو اسمبلیوں کی رخصت کے بعد تین دن کے اندر نگران وزیر اعظم کا نام طے کرنا ہو گا ، یعنی قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے پاس 3جون تک اتفاق رائے کی مہلت ہو گی ۔ اگر فریقین اتفا ق رائے میں کامیاب نہیں ہو پاتے تو یہ ذمہ داری خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو تفویض ہوجائے گی، یہ کمیٹی جو آٹھ ارکان پر مشتمل ہو گی سپیکر قومی اسمبلی تشکیل دیں گے جس کے لیے نام قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف تجویز کریں گے کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے چار چار ممبران شامل ہوں گے ۔کمیٹی کو قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی جانب سے ایک ایک نام بھجوایا جائے گا جن میں سے کمیٹی کو کسی ایک نام کا انتخاب کرنا ہو گا۔ کمیٹی کا بھی تین دنوں کے اندر ان ناموں میں سے کسی ایک پر اتفا ق رائے ضروری ہوگا ۔ اتفا ق رائے نہ ہونے کی صورت میں 7جون کو از خود نام الیکشن کمیشن کو منتقل ہو جائینگے جسے الیکشن کمیشن کو دو دنوں میں فیصلہ کرنا ہوگا، یعنی الیکشن کمیشن نام منتقل ہونے کی صورت میں 8جون تک حتمی طور پر نگران وزیر اعظم کے نام کا اعلان کر یگا۔ یہی طریقہ کار نگران وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے اپنا یا جائے گا ۔جہاں پہلی مشاورت کی ذمہ داری وزیر اعلیٰ اور صوبائی اسمبلی کے قائد اختلاف کی ہے ، تاہم صوبائی سطح پر بننے والی کمیٹی اسی ترتیب سے چھ ارکان پر مشتمل ہو گی ، آرٹیکل 224اے کی شق ایک اور دو کے تحت کمیٹی کو بھی نام موصول ہونے کے تین دن کے اندر نگران وزیر اعظم یا نگران وزیر اعلیٰ کے لیے کسی ایک نام کا انتخاب کرنا ہو گا ۔یعنی خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں وزرائے اعلی ٰ اور قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق رائے کی صور ت میں 31مئی تک نگران وزرائے اعلی ٰ کا اعلان کر دیا جائے گا،اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں معاملہ صوبائی اسمبلیوں کی کمیٹیوں کو بھجوا دیا جائے گا ۔تینوں صوبوں میں 5جون کو نگران وزرا ئے اعلی ٰ کا اعلان کر دیا جائے گا۔