پاکستان اور افغانستان کی غلطیوں کے آگے بند بندھ گیا

 پاکستان اور افغانستان کی غلطیوں کے آگے بند بندھ گیا

سوشل سیکٹرمیں تعاون ،قیدیوں کے تبادلہ کے عمل پر اتفاق رائے ایک اہم علاقائی پیشرفت دونوں ملکوں کو امن مذاکرات نتیجہ خیز بنانے کیلئے بہت سی چیزوں سے پرہیز کر نا پڑیگا

(تجزیہ :سلمان غنی) پاکستان اور افغانستان میں جاری امن مذاکرات اور دونوں جانب کی قیادتوں کے درمیان باہمی مسائل سوشل سیکٹرمیں تعاون، قیدیوں کے تبادلہ کے عمل پر اتفاق رائے کو ایک اہم علاقائی پیشرفت قرار دیا جا سکتا ہے اور اس کے اثرات یقیناً علاقائی امن پر ظاہر ہوں گے ، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں جانے والے اعلیٰ سطحی وفد کی افغان صدر چیف ایگزیکٹو اور دیگر افغان لیڈروں سے ملاقاتوں کے عمل کوعالمی تائید و حمایت حاصل ہے ، اور دو طرفہ رابطوں کے اس عمل کے حوالہ سے عالمی میڈیا یہ کہتا نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں امن کے حوالہ سے سیاسی حل کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے امریکہ سمیت دیگر علاقائی قوتوں نے اس کیلئے گرین سگنل دیا اور اس کا آغاز فروری میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ کابل سے ہوا اور وہاں امریکی افواج کے جنرل اور افغان افواج کے سربراہ سمیت دیگر عسکری ماہرین کے درمیان مشاورت میں طے پایا کہ دہشت گردی کی جڑیں کاٹنے کیلئے مؤثر اور مربوط کوشش ہو گی اور خصوصاً پاکستان اور افغانستان مل کر اس عمل کو آگے بڑھائیں گے ۔پہلی مرتبہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہ کرنے پر اتفاق کیا گیا جو ظاہر کرتا ہے دونوں اپنے درمیان غلط فہمیوں کے سلسلہ کے آگے بند باندھنا چاہتے ہیں۔وزیراعظم پاکستان کے دورہ سے پہلے قندوز میں مدرسے کو ٹارگٹ کر کے معصوم بچوں کی شہادت کے عمل کے ذریعہ اس مذاکراتی عمل سے طالبان اور عام افغانیوں کو بدظن کرنے کی سنجیدہ کوشش کی گئی ہے ، افغانستان میں امن کے حوالے سے کوئی مشترکہ کوشش ہو تو اسے کون سبوتاژ کر سکتا ہے ؟ یقیناً یہ بھارت ہے جو کبھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے پاکستان کو کوئی مثبت کردار ادا کرنے کا ماحول فراہم کیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ اس مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کیلئے ایک ایسا عمل کیا گیا جس کے براہ راست اثرات عام افغانی کے دل اور ذہن پر ہوئے ہیں اور طالبان نے بھی اس ظالمانہ بمباری پر اپنا ردعمل میدان جنگ میں دینے کا اعلان کیا ہے ، مذاکراتی عمل کو بظاہر ایک دھچکاپہنچانے کی کوشش کی گئی ہے جسے پاکستان نے بظاہر اپنی بہتر حکمت عملی کے ذریعے اپنے وزیراعظم اور وزیر خارجہ سمیت قومی سلامتی کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کو کابل بھیج کر امن کے حوالہ سے کابل کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کا عملاً اظہار کیا وزیراعظم پاکستان کا یہ دورہ عام افغانی کے زخموں پر بھی مرہم رکھے گا تاکہ پاکستان اس ساری صورتحال سے افغانیوں کو نکالنے کے لیے مذاکرات کی میز پر عام فریقین کولانااور معاملات کو آگے بڑھانا چاہتا ہے وگرنہ حالات اس قدر تلخ کر دیئے گئے تھے کہ پاکستانی پارلیمنٹ کے سپیکر ایاز صادق اور ارکان پارلیمنٹ کے دورہ کابل پر افغان صدر اشرف غنی کو دورہ پاکستان کی دعوت دی گئی مگر انہوں نے اسے مسترد کر دیا تھا،پاکستان نے اس کا جواب مسلح افواج کے سربراہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو کابل بھیج کر دیا تھا اور اب پاکستان کے منتخب وزیراعظم ایک بار پھر کابل گئے ،ماضی میں روٹھے ہوئے افغانوں کو منانے کی ایسی منظم اور سنجیدہ کوشش پاکستان نے کم ہی اختیار کی ہے ، اب یقیناً اس ساری صورتحال کے جواب میں افغان صدر اشرف غنی کا دورہ پاکستان متوقع ہے ۔یہ حقیقت اب بالکل واضح ہو گئی ہے کہ افغانستان میں امن کیلئے بڑے سٹیک ہولڈرز پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور واشنگٹن انتظامیہ اب مذاکرات کے حوالہ سے مکمل یکسو ہو چکی ہیں اور ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کے بعد پاکستان کی تجویز کردہ پالیسی اپنائی گئی ہے اور اس لئے اس مرحلہ پر وزیراعظم پاکستان کو کابل بھجوایا گیا اور بتایا گیا کہ پاکستان افغانستان میں امن کیلئے کس حد تک سنجیدہ ہے اور افغانوں کو بھی تحفظات کے باوجود امن مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے بہت سی چیزوں سے پر ہیز کرنا پڑے گا ۔ پاکستان /افغانستان

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں