ن لیگ کی قیادت اور چوہدری نثار میں برف پگھل پائے گی؟
نثار پیچھے ہٹنے کو تیار،کیاقیادت بھی ایسا کر پائیگی،چکری کا چوہدری چکر بازی نہیں کر سکتا
(تجزیہ :سلمان غنی) عمران خان کی جانب سے مسلم لیگ نون کے سینئر رہنما چوہدری نثار علی سے پی ٹی آئی میں شرکت کیلئے رابطہ کا اعلان اور مسلم لیگ نون کے صدر وزیراعلٰی شہبازشریف کی جانب سے چوہدری نثار علی خان سے ملاقاتوں کا سلسلہ سیاسی محاذ پر ان کی اہمیت و حیثیت کو ظاہر کرنے کے ساتھ اس امر کا کھلا اظہار ہے کہ آج بھی اچھی شہرت اور سیاسی سمجھ بوجھ کے حامل افراد سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہیں ۔جہاں تک یہ سوال ہے کہ چوہدری نثار علی خان مسلم لیگ نون میں مسئلہ کیوں ہیں ؟،جماعت کی قیادت سے ان کے اختلافات کی نوعیت کیا ہے ؟، نوازشریف سے اختلافات اور شہبازشریف سے قربت کی بنیاد کیا ہے ؟، کیا وہ مسلم لیگ نون کو خیرباد کہہ کر تحریک انصاف کی کشتی میں سوار ہوں گے تو ان سوالات کے جواب کیلئے خود چوہدری نثار علی خان کی شخصیت ان کی سیاست اور ان کے خیالات و نظریات کو سمجھنا ضروری ہے ۔چوہدری نثار علی خان مسلم لیگ نون کے قیام سے اب تک مسلسل اپنی جماعت اور قیادت کے ساتھ بھرپور کمٹمنٹ کا اظہار کرتے اور ساتھ چلتے نظر آئے ہیں البتہ پارٹی میں ان کا کردار اس حوالے سے مختلف ضرور ہے کہ وہ اہم ایشوز اور حالات واقعات پر اپنے نکتہ نظر کا اظہار اور اختلاف رائے کرتے رہے ہیں جس بناء پر انہیں ایک اصول پسند اور مشکل شخص کے طور پر لیا جاتا رہا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ اقتدار کے اس دور میں بوجوہ وہ نظرانداز ہوئے اور وہ اس امر کا اظہار پارٹی کی سطح پر کرتے اور اس حوالہ سے استفسار کرتے نظر آتے رہے اور خصوصاً پاناما کیس آنے کے بعد سابق وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے عدلیہ کے سامنے پیش ہونے کے اعلان ایوان میں جا کر تقریر کرنے کے عمل جے آئی ٹی کے سامنے پیشی اور بعدازاں عدالت عظمٰی سے نااہلی کے بعد پارٹی کی جانب سے اختیار کئے جانے والے بیانیہ پر تحفظات کا اظہار ان کی جانب سے ہوتا رہا یہاں تک کہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ جے آئی ٹی میں پیشی کے روز چوہدری نثار علی خان وزیراعظم نوازشریف کو یہ کہتے بھی سنائی دیئے کہ نوازشریف تو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو سکتے ہیں مگر ایک منتخب وزیراعظم کے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا کوئی جواز نہیں اور انہوں نے جے آئی ٹی میں اسٹیبلشمنٹ کے مؤثر کردار کی نشاندہی بھی کی اور جے آئی ٹی کے بعض ارکان پر شدید تحفظات ظاہر کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف کو اس سے باز رہنے کا مشورہ دیامگر اس وقت پارٹی کے اندر ایک عنصر اس امر پر مصر رہا کہ تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے ہمیں اس سارے عدالتی عمل سے سرخرو ہونا چاہیے ۔ بہرحال جو ہونا تھا ہو گیا مگر اقتدار سے اترنے کے بعدنوازشریف کے سامنے چوہدری نثار کے کردار کو مشکوک بنانے کیلئے کچھ لوگ سرگرم تھے اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے اور معاملات یہاں تک پہنچ گئے کہ خود سابق وزیراعظم نوازشریف یہ کہتے نظر آئے کہ ایک جانب میری اہلیہ بستر علالت پر ہیں دوسری جانب مجھ پر مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں تو چوہدری نثار کو اپنے تحفظات یاد آنے لگے ہیں ۔البتہ خود چوہدری نثار علی خان کی جانب سے اپنے والد کے ساتھ جدوجہد میں سرگرم مریم نواز کے حوالے سے ان کے بے وقت ریمارکس کو خود جماعت کے اندر بھی اچھا نہیں سمجھا گیا اور اب نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ نوازشریف اور چوہدری نثار علی کے درمیان ایک خلیج قائم ہے کیا یہ خلیج ختم ہو پائے گی کیا ان کے درمیان برف پگھلے گی تو واقفان حال اس میں شہبازشریف کے کردار کو اہم قرار دیتے ہیں۔ اور یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ شہبازشریف چوہدری نثار کی قربانی دینے کو تیار نہیں البتہ کچھ عناصر ان سے جان چھڑانے کیلئے مصر ہیں جہاں تک یہ سوال ہے کہ چوہدری نثارپی ٹی آئی میں شامل ہوں گے تو ان کو قریب سے جاننے اور ان خیالات کوخارج ازامکان سمجھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ چکری کا چوہدری سب کچھ کر سکتا ہے مگر چکر بازی چالاکی اور ہوشیاری ان کی فطرت میں شامل نہیں ، تمام تر اختلافات اور تحفظات کے باوجود وہ مزید پیچھے تو ہٹ سکتے ہیں مگر وابستگی تبدیل کر کے پی ٹی آئی میں شامل نہیں ہو سکتے ہاں البتہ چوہدری نثار کے ایشو پر اگر کوئی سب سے زیادہ پریشان ہے تو وہ شہبازشریف ہیں ماضی میں بھی وہ اسی طرح کے اختلافی کیفیت میں پارٹی لیڈرشپ اور چوہدری نثار کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے رہے ہیں اور اب بھی کرنے کیلئے کوشاں ہیں فی الحال انہیں اس میں کامیابی نہیں ملی لیکن ان کی اس حوالہ سے سنجیدگی ظاہر کر رہی ہے کہ ان کی یہ کوشش رائیگاں نہیں جائے گی اور وہ پارٹی قیادت سے ان کے اختلافات کے خاتمہ کے ساتھ جماعت کے اندر ان کی اہمیت بحال کرنے میں کامیاب ہوں گے جہاں تک چوہدری نثار علی خان کے طرزعمل اور حکمت عملی کا سوال ہے تو ان کو قریب سے جاننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ نوازشریف سے ان کی ملاقات کی دیر ہے تو اک ستم ہزار شکوؤں والی صورتحال طاری ہو سکتی ہے مگر یہ ملاقات کب ہو گی کہاں ہو گی اس کا انحصار خود پارٹی کے صدر شہبازشریف پر ہے جہاں تک عمران خان کی جانب سے چوہدری نثار علی خان سے رابطے اور انہیں شمولیت کی دعوت دینے کا سوال ہے تو خود عمران خان نے ہی چند روز قبل اسی طرح کے رابطوں اور خبروں کے حوالے سے کہا تھا کہ چوہدری نثار علی خان میرے دوست ہیں میں انہیں جانتا ہوں کہ وہ کبھی اپنی جماعت نہیں چھوڑیں گے لہذا رابطوں اور پارٹی میں شمولیت کی دعوت کی بات بھی ان کی جانب سے دوستی کا ثبوت ہے ورنہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ چوہدری نثار بھی مسلم لیگ نون نہیں چھوڑیں گے ۔البتہ اسلام آباد کے غیر جانبدار حلقے یہ کہتے رہے ہیں کہ ماضی میں بھی مسلم لیگ نون اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان غیر اعلانیہ رابطوں اور ملاقاتوں کا سلسلہ چوہدری نثار اور شہبازشریف کی ہی ذمہ داری تھی ، مشکل کی اس گھڑی اور مسائل کے گرداب میں پھنسی مسلم لیگ نون اور اس کی قیادت کیلئے ریلیف کا بندوبست بھی یہی دو افراد کر سکتے ہیں ۔ ایک اکیلا دو گیارہ کے مصداق دو لیگیوں کی یہ جوڑی ایک مرتبہ پھر آزمائش کی گھڑی میں جماعت اور قیادت کی عدالت میں سرخرو ہو سکتی ہے مگر اس کیلئے انہیں نوازشریف کا گرین سگنل درکار ہے اور اس گرین سگنل کا انحصار مسلم لیگ نون کے صدر شہبازشریف کے ذریعے ہی ممکن ہے چوہدری نثار بعض ایشوز پر ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں اور کیا پارٹی لیڈرشپ بھی بعض ایشوز پر پیچھے ہٹ پائے گی یہ وہ سوال ہے جس کے جواب میں مسلم لیگ نون کی بہت سے مشکلات کا حل اور مقدمات میں ریلیف کا راز چھپا ہوا ہے ۔دیکھنا ہو گا کہ نون لیگ کی قیادت اس حوالے سے اپنی مٹھی کب کھولتی ہے ۔