ملزم کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنایا جاسکتا ہے ؟
اسلام آباد کی نیب عدالت کے جج محمد بشیر کو اگلے چوبیس گھنٹوں میں ایک نہیں دو فیصلے کرنے ہیں
(بی بی سی ) اسلام آباد کی نیب عدالت کے جج محمد بشیر کو اگلے چوبیس گھنٹوں میں ایک نہیں دو فیصلے کرنے ہیں۔ جج محمد بشیر کو میاں نواز شریف کی اس درخواست پر فیصلہ پہلے کرنا ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ شریف خاندان کی لندن میں جائیدادوں کے حوالے سے مقدمے کا فیصلہ اس وقت تک مؤخر کیا جائے جب تک لندن میں زیر علاج بیگم کلثوم نواز کی صحت سنبھل نہیں جاتی۔دوسرا فیصلہ جج محمد بشیر کو یہ کرنا ہے کہ انہیں اپنی اعلان کردہ تاریخ پر شریف خاندان کے بارے میں مقدمے کا فیصلہ کرنا ہے یا نہیں۔سابق وزیر اعظم نواز شریف ، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر)صفدر کے خلاف لندن میں جائیدادوں کے حوالے سے مقدمے کی سماعت 9ماہ سے جاری ہے ۔ میاں نواز شریف جو اپنی بیگم کلثوم نواز کی علالت کی وجہ سے لندن میں موجود ہیں انھوں نے نیب عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ اس فیصلے کا اعلان ’چند روز‘ تک مؤخر کر دیں کیونکہ وہ فیصلہ عدالت میں کھڑے ہو کر سننا چاہتے ہیں۔ البتہ میاں نواز شریف نے ’چند روز‘ کی تعریف نہیں کی ہے اور نہ ہی کوئی ایسا اشارہ دیا ہے کہ وہ کب تک واپس پاکستان جانا چاہتے ہیں۔ ماہرین قانون اس سوال پر بحث کر رہے ہیں کہ کیا کوئی ملزم عدالت سے ایسی درخواست کر سکتا ہے کہ عدالت اس کے مقدمے کا فیصلہ اس کی مرضی کی تاریخ پر سنائے ۔ ماہرین قانون کی اکثریت اس مؤقف کی حامی ہے کہ قانون کسی ملزم کو یہ حق نہیں دیتا کہ عدالت اس کی مرضی کی تاریخ پر فیصلہ سنائے ۔ ان ماہرین قانون کا مؤقف ہے کہ کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی سیکشن 366 واضح طور پر کہتی ہے کہ عدالت فیصلے کی تاریخ کا اعلان کرے اور اس کا نوٹس ملزم کو دیا جانا لازمی ہے ۔ماہرین قانون کا خیال ہے کہ سی آر پی سی کی سیکشن (3) 366 واضح ہے کہ کسی عدالتی فیصلے کو اس بنیاد پر غیر مؤثر قرار نہیں دیا جا سکتا کہ عدالتی فیصلے کے وقت ملزم عدالت میں موجود نہیں تھا۔ان ماہرین کے خیال میں قانون کسی شخص کی غیر موجودگی میں مقدمے کی کارروائی چلانے کی اجازت نہیں دیتا لیکن جب ملزم نے مقدمے کی کارروائی میں شرکت کی اور اس نے اصالتاً یا وکالتاً عدالت کے سامنے حاضری دی ہے ، عدالت کو مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ اپنی اعلان شدہ تاریخ پر فیصلہ نہ سنائے ۔ البتہ کچھ ماہرین قانون ایک ایسے عدالتی فیصلے کا ذکر کر رہے ہیں جس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ فیصلہ سناتے وقت ملزم کی عدالت میں موجودگی لازمی ہے ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی قانون کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ممتاز قانون دان جسٹس (ر) طارق محمود کے خیال میں عام طور پر عدالتی فیصلے کے اعلان کے وقت ملزم عدالت میں ہونا چاہئے لیکن عدالت سے فیصلہ مؤخر کرنے کی درخواست کرنا کوئی ایسا غیر معمولی اقدام نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عدالتیں ایسی درخواستوں پر ہمدردی کے ساتھ غور کرتی ہیں اور جہاں ممکن ہو ایسی درخواستوں کو مان بھی لیتی ہیں۔جسٹس( ر) طارق محمود نے کہاکہ اگر ملزم کی عدالت سے غیر حاضری پر اسے مجرم قرار دے دیا جائے تو پھر وہ اسی صورت میں ضمانت کے لیے درخواست دے سکتا ہے جب وہ پہلے خود کو قانون کے حوالے کرے گا۔ ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب عدالتوں نے ایسے فیصلے دئیے جنہیں عام حالات میں صحیح تصور کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا ذکر کیا جس میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کو سزا سنائے جانے کے بعد ان کی غیر موجودگی میں ان کی اپیل کی سماعت کی اجازت دی گئی تھی۔ماہرین قانون ایک نکتے پر متفق نظر آتے ہیں کہ عدالتیں ہمیشہ ہمدردی کے جذبے کو ملحوظ خاطر رکھتی ہیں اور اگر ملزم ایسی ٹھوس وجہ بیان کر سکے جس سے یہ ثابت ہو کہ عدالت میں پیش ہونا ملزم کے اختیار میں نہیں ہے تو ایسے میں عدالتیں اپنی صوابدید پر درخواست پر فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔