مولانا سمیع الحق کی شہادت, ٹائمنگ اہم
جمعیت علما اسلام سمیع الحق گروپ کے سربراہ مولانا سمیع الحق پر قاتلانہ حملہ اور اس کے نتیجہ میں ان کی شہادت کے عمل نے ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے
(سلمان غنی) کیونکہ مولانا سمیع الحق کا ملکی مفادات ،اتحاد و یکجہتی اور خصوصاً ملک بھر میں مذہبی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے حوالے سے ایک بڑا کردار تھا اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ تمام مذہبی جماعتیں مل کر اعتدال کی پالیسی اختیار کر کے محبت اور بھائی چارہ کو فروغ دے کر پاکستان کو امن کا گہوارا بنا سکتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اس مقصد کے تحت بننے والے اتحاد دفاع پاکستان کونسل کی قیادت میں وہ شامل تھے ۔ آج پاکستان کے اندر ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے حوالے سے آنے والے عدالتی فیصلہ کے بعد پیدا شدہ صورتحال میں مولانا سمیع الحق کی شہادت کی ٹائمنگ کو اہم قرار دیا جا رہا ہے ۔سوال یہ پیدا ہو رہا ہے کہ انہیں کس نے اور کیونکر ٹارگٹ کیا۔ ان کی شہادت کے ملکی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے ۔ جہاں تک ان پر قاتلانہ حملے کا سوال ہے تو ابتدائی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ ان کا ملازم اور گارڈ سودا سلف لینے کیلئے گھر سے باہر گئے تو اس دوران حملہ آور دیوار پھلانگ کر گھر میں داخل ہوا اور اس نے مولانا سمیع الحق کو چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا۔ ابتدائی تحقیقات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ قاتل گھات میں تھا۔ اس کے مقاصد کیا تھے ؟ان کا سراغ لگانا حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہے ۔جتنی جلد قاتل کی گرفتاری اور اس مائنڈ سیٹ کو ایکسپوز کر دیا جائے اتنا ہی یہ ملکی حالات کیلئے اچھا ہے ۔ملک بھر میں ان کے لاکھوں کی تعداد میں شاگرد وں اور کارکنوں کیلئے خود مولانا سمیع الحق کے خیالات اور نظریات مشعل راہ ہیں کیونکہ وہ ملک میں انتشار اور خلفشار کو دشمن کا ایجنڈا سمجھتے تھے اور ہمیشہ اتحاد و یکجہتی اور اجتماع امت کی بات کرتے تھے ۔ مولانا سمیع الحق کے افغان طالبان سے اچھے تعلقات تھے ۔ ماضی میں بھی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور افغانستان میں امن و استحکام کے حوالے سے ان کا ایک کردار رہا اور اب جب ایک مرتبہ پھر پاکستان کو افغانستان میں امن کیلئے مفاہمتی کردار ادا کرنے کا کہا جارہا تھا تو ایسے میں مولانا سمیع الحق سے امیدیں جوڑی جارہی تھیں کیونکہ طالبان دارالعلوم حقانیہ کو اپنا نظریاتی قبلہ سمجھتے تھے ۔ لہٰذا اس امر کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ مولانا سمیع الحق جیسے جید عالم اور اہم مذہبی رہنما کو راستے سے ہٹانے میں بھارتی خفیہ ایجنسی را یا افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کا کردار ہوسکتا ہے ۔اب یہ حکومت اور ہمارے تحقیقاتی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ دفاع پاکستان کیلئے اہم کردار ادا کرنے والے مولانا سمیع الحق کے قاتل کو گرفتار کیا جائے اور اس مائنڈ سیٹ کو بے نقاب کیا جائے جو انہیں راہ سے ہٹا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا ہے اور جتنا جلد ممکن ہو اس تحقیقات کے نتائج سامنے آنے چاہئیں۔واقعہ کی ٹائمنگ اس لئے اہم ہے کیونکہ پاکستان کا دشمن یہاں انتشار اور خلفشار چاہتا ہے ،نازک حالات میں یہ واقعہ ان عزائم کی تکمیل کی کوشش ہوسکتی ہے ، مولانا سمیع الحق ہی تھے جو دشمن کے اس ایجنڈا کو جانتے تھے اور انہوں نے ہمیشہ قومی اتحاد،مذہبی ہم آہنگی کی بات کر کے دشمن کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا ۔ آج گیند پاکستان کی مذہبی قیادت کے کورٹ میں ہے کہ وہ ملک کے اندر انتہا پسندی ، شدت پسندی کے خاتمہ کو یقینی بنانے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کرے ، خصوصاً مولانا سمیع الحق کی عظیم شہادت پر کسی کو انتشار برپا نہ کرنے دے اور اتحاد و یکجہتی کو یقینی بنائے ۔ اندرونی اور بیرونی محاذ پر کچھ عناصر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کر کے سی پیک اور خصوصاً پاکستان کی نیوکلیئر اہمیت و حیثیت پر اثر انداز ہوا جا سکتا ہے اس کیلئے وہ مختلف چینلز کو بروئے کار لا کر پاکستان کی سیاسی قوتوں، اداروں اور طبقات کے درمیان ایک محاذ آرائی، کشمکش اور تناؤ کی کیفیت طاری کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں بنیادی فرض حکومت کا ہے کہ وہ اس سازش کو سمجھے اور سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے اور اپنی انتقام کی آگ کو بجھانے کیلئے اقدامات کرنے کے بجائے نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے سب کو ساتھ لیکر چلے اور پارلیمنٹ کے ذریعہ یہ پیغام دے کہ ہمیں اپنے سیاسی مفادات سے زیادہ قومی مفادات عزیز ہیں اور پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی استحکام اور اتحاد و یکجہتی کیلئے جو ممکن ہوا کریں گے ۔ اس حوالے سے ہماری کوئی انا اور ضد نہیں اور ایسے ہی جذبے کا اظہارخود اپوز یشن قوتوں کو بھی کرنا چاہیے اور حکومت کو ٹارگٹ کرنے اور اسے نیچا دکھانے کے بجائے پاکستان کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا قومی کردار ادا کرنا چاہیے ۔ سب کو یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ دشمن یہاں استحکام نہیں چاہتا اور اس کے مذموم عزائم کو ناکام بنانا سب کی ذمہ داری ہے ۔