آلو , پیاز مودی کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں!
ماضی میں بھارت میں پیاز کی قیمتوں میں اضافے کے باعث پیدا ہونے والی اقتصادی مشکلات پر کسانوں نے اپنے ووٹوں کے ذریعے کئی حکومتوں کو سخت سبق دیا تھا
(ڈی ڈبلیو) اور وہ اقتدار سے محروم بھی ہو گئی تھیں۔ اب بھارت میں عام انتخابات سے قبل پیاز اور آلو کی قیمتوں میں انتہائی کمی نے ایک نیا بحران پیدا کر دیا ہے ۔ کسانوں نے نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں انہیں ووٹ نہیں دیں گے ۔بھارت میں حالیہ ہفتوں کے دوران پیاز اور آلو کی قیمتوں میں بڑی گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ ایک اعشاریہ تین بلین کی آبادی والے اس ملک میں یہ اجناس انتہائی اہم ہیں اور آبادی کا ایک بڑا حصہ اپنی خوراک میں ان پر انحصار کرتا ہے ۔ خبر رساں ادارے رائٹرز نے حال ہی میں درجنوں کسانوں کے انٹرویو کئے اور ان سے دریافت کیا کہ اس صورتحال میں ان کا سیاسی ردعمل کیا ہو گا۔ایسے ہی اپنے ایک انٹرویو میں ریاست مہاراشٹر سے تعلق رکھنے والے پیاز کے کاشت کار مدھوکر ناگرے نے کہا وہ (وزیر اعظم مودی) آئندہ مہینوں میں چاہے کچھ بھی کر لیں میں ان کے خلاف ہی ووٹ ڈالوں گا۔ میں 2014والی غلطی نہیں دوہراؤں گا۔ انہوں نے گزشتہ الیکشن میں مودی کی پارٹی کو ووٹ دیا تھا ۔1998میں نئی دہلی کے ریاستی الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکست کی وجہ پیاز کی قیمتوں میں اضافہ بنا تھا۔ پیاز کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے 1980 کے عام انتخابات میں اندرا گاندھی کو وزیر اعظم کے منصب پر فائز کرنے کی راہ بھی ہموار کی تھی۔ تب کانگریس پارٹی نے اپوزیشن کے اتحاد کو بری طرح شکست سے دوچار کیا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب الیکشن میں ناکامی کے بعد اپوزیشن کے شکست خوردہ عناصر نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی بنیاد رکھی تھی۔یہ بات بھی اہم ہے کہ بھارتی ووٹرز کی بڑی تعداد دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے اور ان کے ووٹ کسی بھی پارٹی کی جیت میں فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ حالیہ ہفتوں کے دوران بھارت کے کئی علاقوں میں غریب اور کم اراضی پر کاشت کرنے والے کسان مظاہرے بھی کر چکے ہیں۔ ان کسانوں نے پیاز کی فصل سے سڑکیں بھی بلاک کیں اور حکومت مخالف نعرے بازی بھی کی۔ بھارت میں ایک کلو پیاز کی قیمت ایک روپے تک بھی گری جبکہ بھارتی کسانوں کے مطابق ایک کلو پیاز کی پیداوار پر آٹھ روپے لاگت آتی ہے ۔ بھارتی ریاست اتر پردیش میں بھی آلو کی قیمتوں میں کمی کے باعث کسان سراپا احتجاج ہیں۔ ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی اس ریاست نے 2014کے الیکشن میں مودی کی جیت میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ تاہم اب وہاں بھی سیاسی جذبات مودی کے خلاف ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ 545 نشستوں والی بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں میں اتر پردیش اور مہاراشٹر کی ریاستوں سے 128 قانون ساز منتخب کیے جاتے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ آئندہ برس مئی میں ہونے والے الیکشن میں اگر صرف ان دونوں ریاستوں میں ہی ووٹروں نے مودی کو مسترد کر دیا تو وہ شکست سے دوچار ہو سکتے ہیں یا کم از کم مخلوط حکومت سازی پر مجبور ہو جائیں گے ۔ممبئی کے نواح میں واقع ہیوارگون نامی گاؤں کے کسان مادھو پاویسے نے رائٹرز کو بتایا کہ گزشتہ الیکشن کے موقع پر مودی نے ان کے لیے اچھے دنوں کا وعدہ کیا تھا اور اسی لیے انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔ ‘‘لیکن اب ہمیں انتہائی برے حالات کا سامنا ہے ۔’’