کشیدگی میں کمی کیلئے پس پردہ سفارتکاری؟
پاکستان بھارت کے ساتھ موجودہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ‘بیک چینل ڈپلومیسی’ کا استعمال کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے اسلام آباد نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ذریعے بھارتی حکومت کو ایک پیغام بھی پہنچایا ہے ۔
(ڈی ڈبلیو) اسلام آباد کی ان کوششوں پر کئی سیاسی مبصرین یہ سوالات بھی اٹھا رہے ہیں کہ آیا ریاض حکومت پاکستان اور بھارت کے مابین مفاہمت کے لیے مخلصانہ کوششیں بھی کرے گی اور آیا نئی دہلی مصالحت کی ان کاوشوں کو قبول بھی کر لے گا۔معروف دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان نے پرنس محمد بن سلمان کو ایک زبانی پیغام دیا ہے ، ‘‘انہیں کشمیر کے حوالے سے بریف کیا گیا اور بتایا گیا کہ اسلام آباد پلوامہ حملے میں بالکل بھی ملوث نہیں۔ عمران خان کی تقریر کے بیشتر نکات سے انہیں آگاہ کر دیا گیا تھا کیونکہ ہمیں پتہ ہے جب بھی کسی ملک کا سربراہ بھارت کا دورہ کرتا ہے ، تو نئی دہلی مشترکہ اعلامیے میں دہشت گردی کے حوالے سے کوئی نہ کوئی شق اس میں ڈال دیتا ہے ۔ اور اگر وہ ملک بھارت کے قریب ہو تو پاکستان کا نام بھی ڈلوا دیا جاتا ہے ۔ اس لیے حفظِ ماتقدم کے طور پر ایسا کیا گیا اور میں نے سعودی ولی عہد اور بھارتی حکومت کا جو مشترکہ اعلامیہ پڑھا ہے ، اس میں اس طرح کو کوئی شق نہیں ہے ۔’’پاکستان میں ایسی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ بھارت پاکستان پر محدود یا وسیع پیمانے پر حملہ کرنے کی تیاریاں بھی کر رہا ہے ۔ نئی دہلی نے اس سے پہلے بھی پاکستان میں ‘سرجیکل سٹرائیکس’ کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جسے اسلام آباد نے مسترد کر دیا تھا۔ لیکن لیفٹیننٹ جنرل( ر)امجد شعیب کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ایسے کوئی ثبوت نہیں ملے کہ بھارت کسی حملے کی تیاری کر رہا ہے ۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایاکہ ‘‘صرف میڈیا سے جعلی خبریں نشر کرائی گئیں کہ بھارت ایسا کر رہا ہے ۔ لیکن ہمیں بھارتی فوج کی کوئی نقل و حرکت نظر نہیں آئی اور نہ ہی کسی جارحانہ تیاری کا کوئی اشارہ ملا ہے ۔’’تجزیہ نگار احسن رضا کے خیا ل میں ریاض حکومت اپنی پوری کوشش کر ے گی کہ بھارت اور پاکستان میں کشیدگی کم ہو، ‘‘میرے خیال میں کشیدگی کم ہونے کی صورت میں سعودی عرب پاکستانی جہادی تنظیموں کو ایران کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرے گا کیونکہ اس کی پوری توجہ اس وقت ایران پر ہے ۔ میر ے خیال میں آنے والے دنوں میں ان دونوں ممالک (پاکستان اور بھارت) کے مابین کشیدگی کم ہوگی کیونکہ سعودی عرب 44 بلین ڈالر خرچ کر رہا ہے تو نئی دہلی کو بھی ریاض کی بات تھوڑی بہت تو سننا پڑے گی۔ تاہم سعودی عرب یہ کشیدگی پاکستان کے مفاد کے لیے کم نہیں کرائے گا بلکہ اس کے لیے اس کے اپنے مفادات ہیں۔’’