او آئی سی کا اعلامیہ مؤثر اور نتیجہ خیز قرار دیا جاسکتاہے
سشما سوراج کی او آئی سی میں شمولیت سے کیا فائدہ ملا،پاکستان کا کیا نقصان ہوا؟
(تجزیہ: سلمان غنی) پاکستان کی عدم موجودگی کے باوجود او آئی سی کی وزرا ئے خارجہ کا نفرنس کے اعلامیہ کو پاک بھارت کشیدگی، کشمیر کاز اور خصوصاً وہاں ہونے والی ریاستی دہشت گردی کے حوالے سے اہم، مؤثر اور نتیجہ خیز قرار دیا جا سکتا ہے ۔ جہاں عالم اسلام نے خطے کی صورتحال کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے کسی کنفیوژن سے دو چار ہونے کے بجائے ایک واضح مؤقف اختیار کیا جسے سراہا جانا لازم ہے ۔ اعلامیہ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل تنازع کشمیر کو قرار دیتے ہوئے اس کے حل پر زور دیا گیا اور کہا گیا کہ جنوبی ایشیا میں امن تنازع کے حل کے بغیر ممکن نہیں، اعلامیہ میں کھلے طور پر مقبوضہ کشمیر میں ظلم، جبر، بربریت اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی۔ لہٰذا کانفرنس اور اس کے اعلامیہ کے بعد یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ بھارت کی نمائندگی خصوصاً بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی یہاں آمد کا کیا فائدہ ہوااور پاکستان کی عدم موجودگی کے باوجود پاکستان کا کیا نقصان ہوا؟ کیا اعلامیہ کو پاکستان کے مؤقف کی تائید قرار دیا جا رہا ہے ؟ اور کیا واقعی عالم اسلام نے فلسطین کے بعد کشمیر کو اپنا مسئلہ سمجھا ہے ؟ اعلامیہ کے اثرات کیا ہوں گے ؟ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی 46 ویں کانفرنس کے آغاز سے پہلے جو صورتحال پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی صورت میں چھائی ہوئی تھی،اسلامی ممالک کی تعاون کی اس تنظیم میں پہلی بارہوا کہ پاکستان مخالف اور ہندو اکثریتی ملک ہندوستان کو اس کے افتتاحی سیشن میں بطور مہمان بلایا گیا ۔ اور پاکستان اس تنظیم کے بنیادی ممبر کی حیثیت سے اعتراض کناں تھا کہ ایک جانب ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور دوسری طرف کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی امداد پرپاکستان سے کشیدگی کو اس سطح تک لے گیا ہے کہ اس کانفرنس کے انعقاد سے محض چند روز قبل پاکستانی سرحدوں اور خود مختاری کی خلاف ورزی کی،پاکستان احتجاج کر رہا تھا کہ ایسے ماحول میں اور سب سے بڑھ کر بھارت کو کس حیثیت میں اسلامی تعاون کی تنظیم بلا رہی ہے ؟ گو پاکستان میں اور دنیا بھر میں پاک بھارت کشیدگی کی صورتحال غالب رہی مگر پاکستانی وزارت خارجہ اور وزیر خارجہ شاہ محمود نے برادر اسلامی ممالک سے احتجاج کیا اور فیصلہ واپس لینے کیلئے دباؤ بھی ڈالا ۔ بھارت اس کانفرنس میں گیا تو اپنے مؤقف کے دفاع اور دیرینہ خواہش کی تکمیل کیلئے تھا کہ پاکستان کے ساتھ مسلم امہ کا فورم بھی شیئر کیا جائے مگر صورتحال اس کے برعکس رہی۔ پاکستان نے تو اپنا احتجاج ہر سطح پر مسلم برادر ممالک کو باور کرایا اور شاید اس کا حتمی نتیجہ اتنے مؤثر اور معنی خیز اعلامیہ کی شکل میں نکلنا جسے بھارت کیلئے نہ نگلناآسان ہے نہ اگلنے کی بن پا رہی ہے ۔ میرا اپنا تاثر ہے کہ پاکستان موجود ہوتا تو شاید اتنا متاثر کن اعلامیہ جاری نہ ہوتا مگر ہماری سفارتی غیر موجودگی کو ہماری مسلم امہ نے محسوس کیا اور کشمیر پر وہ مؤقف اختیار کیا جو پاکستان اسرائیل کے مقابلے میں مسئلہ فلسطین پر اختیار کرتا ہے ۔ در حقیقت پہلی بارمحسوس ہوا ہے عرب ممالک مسئلہ کشمیر کو بھی مسئلہ فلسطین کے ہم پلہ خیال کرتے ہیں۔ یہ درحقیقت پاکستان کے ترکی، سعودی عرب، قطر اور عرب امارات سے گہرے تعلقات ہیں ، اس اعلامیے میں جس طرح کشمیر کی آزادی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات کی گئی ہے اس سے مسئلہ ایک عالمی فورم پر واضح ہو گیا ہے ۔ لہٰذا مسلم امہ سے اسلامی روایات اور بھائی چارہ سے ایک قدم آگے بڑھ کر دو طرفہ معاشی، فوجی اور سفارتی تعلقات قائم کرنے کی جانب پیش قدمی کرنی چاہئے وگرنہ بھارت ایک مؤثر ، سفارتی پالیسی رکھتا ہے اور نظر آنے والے معاشی تعلقات بھی۔ اگر پاکستان نے ہنگامی مداوا نہ کیا تو پھر بھارت کے خلاف سفارتی محاذ پر ایسی کامیابی روز روز نہیں حاصل کی جا سکتی۔