جہانگیر ترین اور شاہ محمود کی زبان بندی کارگر ہو سکے گی؟
وزیراعظم نے اپنا وزن جہانگیر ترین کے پلڑے میں ڈال کر بڑا پیغام دے دیا
(تجزیہ:سلمان غنی ) وزیراعظم عمران خان نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پارٹی کے سینئر رہنما جہانگیر ترین کے درمیان جاری کشمکش اور تناؤ کی کیفیت کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں اور وزراء کو اس حوالے سے بیان بازی سے روک دیا ہے اور واضح کر دیا ہے کہ کابینہ اجلاس میں کون آ سکے گا یا کون نہیں یہ فیصلہ کرنا وزیراعظم کا استحقاق ہے ۔ البتہ انہوں نے دونوں رہنماؤں کے حوالے سے کہا کہ ان کی رائے کو اہم سمجھا جاتا ہے ۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کی جانب سے اہم سرکاری اجلاسوں میں جہانگیر ترین کی شرکت کو ٹارگٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس عمل کے باعث مخالفین کو بیان بازی کا موقع مل رہا ہے ۔ خصوصاً ن لیگ یہ سوال اٹھاتی ہے کہ یہ توہین عدالت نہیں تو اور کیا ہے ؟ جس پر جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ جہاں بھی جاتا ہوں اس میں وزیراعظم عمران خان کی مرضی اور خواہش شامل ہوتی ہے لہٰذا مجھے پاکستان کی خدمت سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لہٰذا مذکورہ صورتحال کی روشنی میں دیکھنا ہوگا کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے لئے جانے والے نوٹس کے بعد کیا پارٹی کے اندر طاری کیفیت کا خاتمہ ہوگا؟ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی میں اختلافات کی بنیاد کیا ہے ؟ شاہ محمود قریشی کے تحفظات میں کتنا وزن ہے ؟ کیا وزیراعظم عمران خان انہیں دور کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟ اور آنے والے وقت میں اختلافات کی جنگ رک پائے گی؟ جہاں تک جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے درمیان اختلافات کا تعلق ہے تو اس کے ڈانڈے پارٹی کے تنظیمی انتخابات تک جاتے ہیں جس میں جہانگیر ترین اور شاہ محمود گروپ پارٹی کی تنظیم پر اپنا غلبہ چاہتے تھے ۔اختلافات کا یہ سلسلہ ماضی کے بلدیاتی انتخابات میں بھی جاری رہا اور ان دونوں کے نام پر گروپ انتخابات میں سرگرم نظر آئے مگر عمران خان کی اپنی شخصیت کے غلبہ کے باعث یہ گروپ بندی بڑے اختلافات میں تبدیل نہ ہو سکی بعد ازاں اختلافات کا یہ سلسلہ اس وقت مضبوط ہوا جب پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر نظر جمائے ہوئے شاہ محمود قریشی انتخابات میں صوبائی نشست پر کامیاب نہ ہونے کے باعث ٹیکنیکلی وزارت اعلیٰ کی دوڑ سے باہر ہو گئے اور ان کے نیچے صوبائی اسمبلی کے حلقہ سے آزاد حیثیت میں جیتنے والے سلمان نعیم کو جہانگیر ترین نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اپنے جہاز میں بٹھا کر بنی گالہ لے آئے اور انہیں تحریک انصاف میں شامل کر لیا گیا۔ شاہ محمود قریشی نے اس سارے عمل کے دوران مصلحتاً خاموشی تو اختیار کر لی تاہم انہیں ایسا زخم لگا جو آج تک بھرنے کا نام نہیں لے رہا اور ان کے دل میں جہانگیر ترین کے حوالے سے ایسی گرہ بندھ گئی جو شاید دوبارہ کھل نہ سکے ۔بہت چیزیں ایسی تھیں جو شاہ محمود قریشی ہضم نہ کر پا رہے تھے اور اب انہوں نے خاموشی کا روزہ عدالتی طور پر نا اہل جہانگیر ترین کے کابینہ کے ایک اہم اجلاس میں شرکت کے عمل پر توڑا ۔ اس صورتحال میں سب سے پہلے پنجاب کے گورنر چودھری سرور نے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان تناؤ کی کیفیت سے اپنے آپ کو یہ کہہ کر الگ کر ڈالا کہ میں پارٹی ڈسپلن کا پابند ہوں اور اس کیفیت میں میں کسی کے ساتھ نہیں۔ بعد ازاں جہانگیر نے اپنے حمایتی وزرا کو ہلایا جلایا اور فواد چودھری سمیت فیصل وائوڈا اور دیگر نے جہانگیر ترین کے حق میں بیانات دینا شروع کر دیئے اور یہی وجہ تھی کہ وزیراعظم نے نوٹس لیتے ہوئے کابینہ کے اراکین کو بیان بازی سے روک دیا اور اس عمل پر نا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زراعت پر جہانگیر ترین سے بطور ایکسپرٹ بریفنگ لی اور یہ کہ زراعت پالیسی پر انہیں اسائنمنٹ میں نے دی تھی اور اس طرح سے انہوں نے اپنا وزن جہانگیر ترین کے پلڑے میں ڈال دیا جس سے یقیناً شاہ محمود قریشی کے موقف کو دھچکہ لگا۔ موجودہ صورتحال میں تحریک انصاف کے دو سینئر قائدین کے درمیان بیان بازی کا یہ عمل پارٹی کے اندر گروپ بندی کو گہرا کر رہا ہے ۔جہانگیر ترین کی کابینہ میں آمد پر سنجیدہ حلقوں میں یہ سوال ضرور اٹھا ہے کہ اگر ایک شخص کو بددیانت قرار دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ نااہل قرار دیتی ہے تو سیاسی تبدیلی کی دعویدار پی ٹی آئی کی حکومت انہیں کیونکر اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں بلانے پر مصر ہے ۔