فیفٹ---کوآرڈینیٹر کا تقرر, ہنگامی ضرورت
عالمی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(فیٹف) کے علاقائی گروپ اے پی جی ( ایشیا پیسیفک گروپ) کا اجلاس صرف 10 روز بعد ہونے والا ہے
( امتیاز گل) اس اجلاس میں یہ جائزہ لیا جائے گا کہ پاکستان نے فیٹف سے جن اقدامات کا وعدہ کیا تھا ان پر کس حد تک عملدرآمد کیا گیا؟ معلوم ہوا ہے کہ حکومت پاکستان نے فیٹف کے 27 نکاتی ایکشن پلان کے حوالے سے اپنا جواب تیار کرلیا ہے ، اس جواب میں حکومت نے اپنے ان تمام اقدامات کا ذکر کیا ہے جو اس نے فیٹف ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے کئے ہیں۔ خیال ہے کہ اس حکومتی دستاویز میں جو فیٹف کے ایشیا پیسیفک گروپ کے اجلاس میں پیش کرنے کیلئے تیار کی گئی ہے بعض تنظیموں کے خلاف حکومتی اقدامات کی تفصیل بھی درج ہے ، ان تنظیموں میں جیش محمد،لشکر ، جماعت الدعوہ اور ان تنظیموں سے وابستہ گروپ شامل ہیں، اس رپورٹ میں مدارس کو مرکزی دھارے میں لانے کا منصوبہ، دہشت گردوں کو سرمائے کی فراہمی اور منی لانڈرنگ کو روکنے کیلئے سخت کنٹرول اور مانیٹرنگ کے موثر نظام کا ذکر بھی شامل ہے ۔ لیکن یہ سوال بہت اہمیت رکھتا ہے کہ فیٹف ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے پاکستانی حکومت کے تمام شعبوں کے درمیان جو ربط اور ہم آہنگی ناگزیر ہے کیا یہ دستاویز اسے یقینی بناسکتی ہے ؟ کیا ایشیا پیسیفک گروپ حکومت کے اس دعوے کو قبول کرلے گا کہ اس نے ان تمام مدارس کا انتظام سنبھال لیا ہے جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ ان مدارس کا القاعدہ اور داعش سے براہ راست یا نظریاتی تعلق ہے ۔ ان تمام باتوں کے باوجود چونکہ اب بھی منی لانڈرنگ کے کئی اہم کیسز التوا میں ہیں اور ان کا کوئی منطقی انجام نظر نہیں آتا اس لیے یہ سوال بہت اہمیت رکھتا ہے کہ حکومت نے منی لانڈرنگ کے خلاف جو اقدامات کیے ہیں کیا ایشیا پیسیفک گروپ ان سے مطمئن ہوگا اور ان اقدامات کو سراہے گا؟ چونکہ بھارت فیٹف کے ایشیا پیسیفک گروپ کو پاکستان کیخلاف سیاسی لڑائی کا میدان بنانے کی پوری کوشش کررہا ہے اس لیے یہ سوال ضروری ہے کہ بھارت کے اس کردار کے باوجود کیا حکومت ایشیا پیسیفک گروپ کو یہ یقین دلاسکے گی کہ وہ اپنے تمام اداروں کے بھرپور تعاون کے ساتھ ستمبر تک فیٹف کے ایکشن پلان پر عملدرآمد میں کامیاب ہوجائے گی؟ یہ وہ چبھتے ہوئے سوالات اور مزید درجنوں تحفظات ہیں جو اس معاملے میں حکومت کیلئے چیلنج بنے رہیں گے ، ان کی وجہ سے فیٹف ایکشن پلان کے تحت دہشت گردی کیلئے سرمائے کی فراہمی اور منی لانڈرنگ کو روکنے کیلئے حکومت کی کوششوں پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ اس صورتحال کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ 2008 سے فیٹف پاکستان پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے ، اس کے باوجود حکومت نے مستقل بنیادوں پر تاحال کسی ایسے ماہر کا تقرر نہیں کیا جو فیٹف سے متعلق معاملات سے ہمہ وقت آگاہ رہے ، ان کی مانیٹرنگ کرے اور فیٹف کو بھی حکومتی سرگرمیوں سے باخبر رکھے ۔ یہ ایک بہت اچھا اقدام ہوگا اگر وزیر اعظم فیٹف کے معاملے پر تیار کی جانے والی تازہ ترین ‘‘ ایکشن پلان پر عملدرآمد رپورٹ’’ پر دستخط سے قبل اس معاملے کیلئے مستقل بنیادوں پر ایک قومی کو آرڈی نیٹر / فوکل پرسن کا تقرر کردیں، یہ قومی کو آرڈی نیٹر تمام متعلقہ اہم وزارتوں کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات سے نہ صرف آگاہ رہے گا بلکہ ان وزارتوں کی نمائندگی بھی کرسکے گا، یہ کوآرڈی نیٹر نہ صرف یہ کہ خزانہ، داخلہ اور امور خارجہ کی وزارتوں اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے درمیان مضبوط رابطوں کو یقینی بنائے گا بلکہ خود بھی ان کے ساتھ ہمہ وقت قریبی رابطہ رکھتے ہوئے ایکشن پلان کی ہمہ وقت مانیٹرنگ کرے گا، یہی نہیں بلکہ وہ اس بات کو بھی یقینی بنائے گا کہ یہ تمام وزارتیں اور ادارے حکومتی پالیسی سے کسی ابہام کے بغیر آگاہ رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں، یہ کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ ایک عالمگیر طریقہ ہے ، دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے کہ جن ممالک کو ایسی صورتحال کا سامنا ہو وہ یہی بندوبست کرتے ہیں۔ اگر قومی کوآرڈی نیٹر براہ راست وزیر اعظم کو جوابدہ ہو تو ممکنہ طور پر یہ ایک پیغام ہوگا کہ پاکستان فیٹف کے مقاصد کے حصول کیلئے اپنے عہد پر نہ صرف قائم ہے بلکہ پوری سنجیدگی کے ساتھ اس عہد کی تکمیل کیلئے کوشاں بھی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ وزارت خزانہ میں بھی ایک ایسا افسر ہونا چاہیے جو اپنے فرائض کی ادائیگی میں غیر معمولی اخلاص اور عزم و حوصلے سے سرشار ہو، وہ اپنی ان خوبیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حکومتی فیصلوں پر عملدرآمد کی نگرانی کرے ، ایسے افسر کو قومی کوآرڈی نیٹر کا معاون ہونا چاہیے لیکن خیال رہے کہ یہ افسر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس ( پی اے ایس ) سے وابستہ لوگوں میں شامل نہ ہو۔ اوپرجس کو آرڈی نیٹر کے تقرر کی تجویز دی گئی ہے وہ اپنے عمومی فرائض کے علاوہ فیٹف کے رکن ممالک میں پاکستان کی ساکھ کو بہتر بنانے اور اس کے قومی وقار کو سربلند کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے ،یہی نہیں بلکہ وہ اس امر کو یقینی بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے کہ حکومت جن پالیسیوں کا اعلان کرے ان پر عملدرآمد ضرور ہو، یہ قومی کوآرڈی نیٹر حکومت کی آواز (ترجمان ) بھی بن سکتا ہے ، یوں بھی دانشمندی کا تقاضا ہے کہ اس حساس معاملے پر کئی لوگ نہیں بلکہ صرف ایک ہی شخص اظہار خیال کا ذمے دار ہو، مثل مشہور ہے کہ بہت سارے باورچی ہنڈیا کو برباد ہی کرتے ہیں۔ یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، عوامی اور نجی دونوں قسم کے مواقع پر متعدد مرتبہ انتہائی سچائی کے ساتھ اس پالیسی پر عملدرآمد کا اعادہ کرچکے ہیں کہ پاکستان نہایت استقامت کے ساتھ پڑوسی ممالک میں عدم مداخلت کی روش پر قائم رہے گا ، اس کے ساتھ ہی تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں بھی جاری رہیں گی، آرمی چیف تو ڈویژنل ہیڈکوارٹرز اور یونٹس میں افسران اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ‘‘ ریاست ( پاکستان) اب کسی صورت کسی جیش یا لشکر کو برداشت نہیں کرے گی ’’۔ یہ اعلانات 15 برس سے بھی زائد عرصے کے بعد ایک حقیقی تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں، درحقیقت فیٹف کی جانب سے ہونے والے جائزے نے ہمارے ملک کو ایک تاریخی موقع عطا کیا ہے کہ ہم اپنے ارادوں کو عمل کے قالب میں ڈھال دیں، اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ موقع بھی ملا کہ ہم دنیا پر یہ ثابت کریں کہ اب پاکستان نے سکیورٹی سٹیٹ کی بجائے ایک عمومی ریاست بننے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ فیٹف کیلئے جس قومی کوآرڈی نیٹر کے تقرر کی تجویز دی گئی ہے وہ ایک ذمے دار ترجمان ہوگا وہ کسی ابہام کے بغیر انسداد دہشت گردی کے اقدامات اور سلامتی سے متعلق پاکستان کی حکمت عملی میں اس اہم تبدیلی (جو کافی عرصہ قبل ہوجانی چاہیے تھی ) کے موثر اظہار کا فریضہ انجام دے گا ۔