چین بلوچستان کے عوام کی ترقی وخوشحالی کا خواہاں
(امتیاز گل )……غلط فہمیاں دور کرنے اور ہم آہنگی کو پروان چڑھانے کی کوشش کے ذیل میں بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے عوامی رہنما آج کل چین کے دورے پر ہیں
جو فی الواقع انوکھی بات ہے ، بلوچ قائدین 18 اگست کو چین کے صوبے گوانگ ڈونگ میں الیکٹرانکس کے مرکز شینزین پہنچے ۔ چار عشروں کی مدت میں شینزین کنگال حالت کو بہت پیچھے چھوڑ کر غیر معمولی دولت کا حامل ہوچکا ہے ، مچھیروں کی بستی سے ترقی پاکر شینزین اب ایسے سپر میگنیٹ میں تبدیل ہوچکا ہے جس میں ہر طرح کی الیکٹرانکس تیار کرنے والے ادارے کام کر رہے ہیں۔بلوچ قائدین کو شینزین اور گوانگ ڈونگ کے دارالحکومت گوانگ ژو بلانے کا بنیادی مقصد چار عشروں کے دوران وہاں واقع ہونے والی غیر معمولی ترقی اور خوش حالی سے آگاہ کرنا ہے ۔ 27 اگست کو بلوچ قائدین اور چینی ماہرین و دانشوروں کے درمیان بلوچستان کی صورت حال اور پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک)سے جڑے ہوئے منصوبوں کی کیفیت پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ بلوچستان سے چین جانے والے وفد میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سیکرٹری جنرل سینیٹر ڈاکٹر جہاں زیب جمالدینی، بی این پی کے رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ، بلوچستان کے وزیر صحت میر نصیب اللہ خان مری، نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر اسحاق بلوچ اور پاکستان نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے بلوچستان کے سابق وزیر خزانہ سید احسان شاہ شامل ہیں۔ بلوچستان کے وفد کی میزبانی کرنے والی چائنا فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل چین شاؤژن نے بلو چ قائدین کا خیر مقدم کیا جن میں سے بیشتر کا تعلق قوم پرست جماعتوں سے ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچ قائدین کا بلایا جانا اور ان سے تبادلہ خیال اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ چینی قیادت ہر فرد کے حقیقی فائدے کے لیے ہمہ گیر اور بھرپور ترقی و خوش حالی یقینی بنانے کی خواہش مند ہے ۔ چین شاؤژن نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں باقی پاکستان کی طرح بلوچستان کے عوام کو بھی سی پیک سے وابستہ منصوبوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا موقع ملے ۔ بلوچ قائدین نے بتایا کہ فیصلہ سازی سے بلوچوں کو دور رکھا جاتا ہے ، اہم عہدے انہیں نہیں ملتے ، بلوچستان کے بہت سے علاقے انتہائی پس ماندہ ہیں اور صوبے بھر میں بنیادی ڈھانچے کی کیفیت انتہائی مایوس کن ہے ۔بلوچ قائدین کو اس دورے کی دعوت چائنا فرینڈ شپ ایسوسی ایشن نے دی تھی جو بین الاقوامی تعلقات میں وسعت اور بہتری لانے کے حوالے سے چینی حکومت کا اہم ادارہ ہے ۔ بلوچ قائدین کا کہنا تھا کہ وسیع تر شفافیت اور بلوچستان میں سی پیک سے جڑے تمام منصوبوں میں مقامی لوگوں کو شریک کرنے سے ترقیاتی کوششوں کے حوالے سے اپنائیت کا احساس پیدا ہوگا۔ سینیٹر ڈاکٹر جہاں زیب جمالدینی کا کہنا ہے کہ بلوچ آزاد اور امن پسند لوگ ہیں لیکن اگر وہ ملازمتوں سے محروم رہیں گے اور معاشی مشکلات میں گھرے رہیں گے تو انقلاب پسند مذہبی عناصر اور ملک کے دشمنوں کے لیے انہیں دہشت گردی کے لیے بھرتی کرنا آسان ہوجائے گا۔ بلوچستان کے وزیر صحت میر نصیب اللہ خان مری کا کہنا ہے کہ چین کو بلوچستان کی غیر معمولی سماجی پسماندگی دور کرنے کے لیے صوبے کے تمام اضلاع میں تعلیم و صحت عامہ اور بنیادی ڈھانچے کا معیار بلند کرنے پر غیر معمولی توجہ دینی چاہیے ۔بلوچ وفد نے چینی میزبانوں کو یقین دلایا کہ وہ چینی دوستوں کی طرف سے سی پیک کے ذریعے پیدا کی جانے والی اس صورت حال کے بارے میں بلوچستان کے عوام کو وسیع پیمانے پر آگاہ کریں گے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کے لیے کچھ نہ کچھ فوائد ہیں اور نقصان کسی کے لیے نہیں۔ اس سے بلوچستان میں چین کے کردار کے حوالے سے پائے جانے والے بے بنیاد تصورات اور افواہوں کو ختم کرنے میں بھی مدد ملے گی،چین پر تنقید اور سی پیک کی مخالفت کے حوالے سے چند انقلابی گروپ پیش پیش ہیں، عام بلوچوں کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔ بلوچ قائدین نے چینی میزبانوں کو یقین دلایا کہ بلوچستان سمیت پورے ملک کو غیر معمولی فوائد سے ہم کنار کرنے والے کسی بھی منصوبے کی مخالفت نہیں کی جائے گی۔ چین بلوچستان