ن لیگ اور پی پی نے ساتھ دیا تو مارچ خطرناک ہو سکتا ہے
فضل الرحمن کی حکومت کے خلاف یکسوئی کسی بڑے کھیل کی نشاندہی کرتی ہے حکومت مارچ کو سنجیدہ لینے کو تیار نہیں، اکتوبر ، نومبر سیاست کے حوالے سے اہم
تجزیہ :سلمان غنی وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکا اور کشمیر کاز کے حوالے سے ان کی تقریر کے اثرات ملکی سیاست پر نظر آ رہے ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن اور خصوصاً مولانا فضل الرحمن حکومت کے خلاف اپنے شدید تحفظات کی بنیاد پر حکومت کے خلاف اپنے احتجاج پر مصر ہیں زمینی حقائق کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کی ایک سالہ کارکردگی میں حالات بہتر ہونے کی بجائے ابتر ہوئے ہیں، ملکی معیشت ڈانواں ڈول اور مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت اپنی انتہا کو چھو رہی ہے اور خود وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت سے جو عوام کو امیدیں اور توقعات تھیں وہ بڑی حد تک متاثر ہوئی ہیں لیکن اس کے ساتھ اگر ان کے دورہ امریکا کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ایک عالمی ادارے کے بڑے فورم پر انہوں نے کشمیر کی صورتحال ، اسلامک فوبیا، دہشت گردی کے رجحان سمیت دیگر ایشوز پر ایک بھرپور، موثر اور جامع تقریر کے ذریعے عوام کے جذبات و احساسات کی بھرپور ترجمانی کر کے اپنے خلاف رد عمل کو کسی حد تک ختم کیا اور مسائل کے باوجود عوام اور رائے عامہ کے رہنماؤں نے ان کے دورہ امریکہ اور وہاں دکھائی جانے والی جرات کو سراہا۔ لیکن بہر حال ان کی تقریر، تقریر تھی اور اس کے سیاسی اثرات تو مرتب ہوئے ہیں لیکن مسائل کا حل اس کے ذریعے ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن خصوصاً مولانا فضل الرحمن اپنے احتجاج اور مارچ پر یکسو ہیں اور ویسے بھی کسی جماعت کے احتجاج کو جمہوری معاشرے میں روکا نہیں جا سکتا ۔مارچ اور احتجاج کے حوالے سے دلچسپ صورتحال مسلم لیگ ن کی ہے جو اس وقت مزاحمت اور مفاہمت کی سیاست کے درمیان تقسیم نظر آ رہی ہے ۔ ایک طرف میاں نواز شریف اور پارٹی کی سینئر لیڈر شپ ہے جو موجودہ صورتحال میں حکومتی عدم کارکردگی کی بنا پر حکومت پر فیصلہ کن چوٹ لگانے کی حامی ہے اور اس نکتہ نظر کے حامی بڑے نام پہلے ہی جیلوں میں پہنچا دیئے گئے ہیں اور دیگر کے گرد شکنجہ کسنے کی تیاریاں ہیں۔پارٹی کے بعض سینئر رہنما یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ایک اکیلا دو گیارہ کے مصداق اگر مفاہمتی محاذ پر سرگرم ہوئے تو آج شریف خاندان کی مشکلات بھی ختم ہوتیں اور ن لیگ کیلئے حکومتی کشتی میں سوار ہونا بھی ممکن بن جاتا۔ بہرحال حالات کی سمت بتا رہی ہے دونوں بڑی جماعتوں کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحفظات شدید ہیں مگر ان کیلئے بڑا مسئلہ مولانا فضل الرحمن کی قیادت اور ان کی مارچ اور احتجاج کی حمایت ہے ، پیپلزپارٹی کو بھی مارچ کی حمایت پر آنا پڑا تو پھر مولانا فضل الرحمن کا مارچ حکومت کیلئے خطرناک بن سکتا ہے ویسے بھی چمن واقعہ اور اس میں ان کی جماعت کے ایک ذمہ دار مولانا حنیف کی شہادت کے واقعہ کو بھی ان کیلئے ایک پیغام قرار دیا جا رہا ہے لیکن ابھی تک مولانا فضل الرحمن اس حوالے سے یکسو نظر آ رہے ہیں۔ ان کا اعتماد اور حوصلہ یہ ظاہر کر رہا ہے کہ بظاہر کوئی بڑی حمایت نہ ہونے کے باوجود ان کو پس پردہ کچھ قوتوں کی آشیرباد نظر آ رہی ہے اور اگر مولانا فضل الرحمن اپنے احتجاج اور مارچ کی تاریخ کا اعلان کر کے اسلام آباد تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر کم از کم حکومت کیلئے ان پر قابو پانا آسان نہیں ہوگا کیونکہ ایک تاثر عام ہے کہ ملک بھر میں بڑی عوامی تائید حاصل نہ ہونے کے باوجود وہ اپنے کارکنوں کی اتنی تعداد ضرور رکھتے ہیں کہ وہ اس تنظیمی طاقت کو بروئے کار لا کر ایک دفعہ اسلام آباد کو ہلا ڈالیں اور اگر ان کے ساتھ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت بھی نکل آتی ہے تو پھر کسی سیاسی تبدیلی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکے گا اور بالآخر حکومت اور اپوزیشن کو بالواسطہ یا بلاواسطہ معاملات طے کرنا پڑیں گے اور اگر ایسا ممکن نہیں ہوتا اور سیاسی طاقت اور قوت کے مظاہرے کو ریاستی قوت کے ذریعے دبانے کی کوشش ہوتی ہے تو پھر حالات کے رخ کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ بڑی جماعتیں حکومت سے زخم خوردہ ہونے اور نیب کی مشکلات برداشت کرنے کے باوجود یہ نہیں چاہیں گی کہ ملک میں جاری و ساری جمہوری سسٹم کو کوئی گزندپہنچے ،سیاسی اونچ نیچ اور حکومتی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے اب یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ حکومت کو اپوزیشن کے ساتھ ڈیڈ لاک ختم کرنا ہوگا اور کسی بھی مجوزہ احتجاجی تحریک سے نمٹنے کیلئے مسائل زدہ عوام کو کوئی ریلیف فراہم کرناپڑے گا جو فی الحال ممکن نظر نہیں آ رہا لہٰذا سیاسی محاذ پر محاذ آرائی اور تناؤکی کشمکش کے خاتمہ کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی تو اکتوبر ، نومبر کو سیاست، حکومت اور اس کے تسلسل کے حوالے سے اہم قرار دیا جا سکتا ہے ۔