ن لیگ،پی پی مارچ کی اصولی حمایت کے باوجودکنفیوژن کا شکار
دونوں جماعتیں حکومت سے نجات تو چاہتی ہیں لیکن جمہوری سسٹم کی قیمت پر نہیں دیکھنا پڑے گا فضل الرحمن سے ن لیگ،پی پی رہنمائوں کی ملاقاتیں کتنی کارگر ہوں گی
(تجزیہ:سلمان غنی) ملک کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی آزادی مارچ کی اصولی حمایت کے باوجود شدید کنفیوژن سے دو چار ہیں اور وہ ہر قیمت پر آزادی مارچ کے کسی مذہبی تشخص کے بجائے سیاسی تشخص کی خواہاں ہیں اوروہ یہ نہیں چاہتیں کہ احتجاجی دھرنا فیض آباد ٹو ثابت ہو بلکہ ایک ایسے احتجاجی مارچ میں شرکت کی خواہاں ہیں جس کے مطالبات سیاسی ہوں، اس کی حکمت عملی بھی سیاسی ہو اور سیاسی و جمہوری عمل کی بقا کے ساتھ ہی احتجاجی عمل کو آگے بڑھایا جائے اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے ۔ان ملاقاتوں کے نتیجہ میں کہا گیاکہ مولانا فضل الرحمن سے مل کر ان تحفظات پر بات چیت ہونی چاہئے جس کیلئے آج بدھ کے روز پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ذمہ داران فضل الرحمن سے مل رہے ہیں۔ کیا مولانا فضل الرحمن دونوں بڑی جماعتوں کے تحفظات دور کر پائیں گے اور اگر ایسا ممکن نہیں ہوتا تو پھر فضل الرحمن اور ان کی جماعت اکیلے ہی مارچ پر نکل پائے گی؟ ۔احتجاجی دھرنا کے اصل مقاصد کیا ہیں اور ان کے حصول کیلئے مارچ کے علاوہ بھی آپشنز ہیں۔بتایا یہ جاتا ہے کہ مولانا کی تیاریوں میں یہ مارچ لاکھوں کی تعداد کا ہے اس کا مقصد عمران خان کی حکومت سے نجات ہے یہی وجہ ہے جوں جوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادتوں کے گرد احتساب کا شکنجہ کسا جاتا نظر آیا توں توں بڑی جماعتوں کے ذمہ داران مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی مارچ کی حمایت کرتے نظر آئے ۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف احتجاجی مارچ اور لاک ڈاؤن کے حامی ہیں اور انہوں نے اپنی جماعت کے ذمہ داران کو واضح ہدایات جاری کیں کہ فضل الرحمن کے احتجاج کا عملاً حصہ بنا جائے اور انہیں ہر طرح کی سپورٹ فراہم کی جائے ۔ واضح ہدایت کے باوجود پارٹی ذمہ دار اور سنجیدہ حلقے بظاہر تو مارچ کی حمایت کی بات کرتے رہے مگر ان کے اندرونی طور پر شدید تحفظات تھے ۔ ان کا کہنا تھا مارچ کے مقاصد واضح نہیں ، ہم اسلام آباد میں ایسی صورتحال طاری کرنے کے حامی نہیں جس کے نتیجہ میں جمہوری سسٹم کو خطرات لاحق ہوں ۔ دوسری جانب یہی صورتحال پیپلز پارٹی کی ہے جو پہلے مرحلے پر تو ایسے کسی احتجاج اور دھرنا کی حمایت ہی نہیں کر رہی تھی جس کا مقصد اسلام آباد کا لاک ڈاؤن کر کے حکومت کو گرانا ہو ۔آصف زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنما حکومت پر گرجتے برستے دکھائی دیئے جب احتساب کا دائرہ خورشید شاہ تک وسیع ہوا اور سندھ حکومت کے ذمہ داران کی گرفتاریوں کی خبریں بھی آنا شروع ہوئیں تو خود بلاول نے بھی مولانا فضل الرحمن کے احتجاجی دھرنا کے حوالے سے گرین سگنل دینا شروع کر دیئے ۔ واقفان حال یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ بڑی جماعتوں کی جانب سے مارچ کی اصولی حمایت کے باوجود فضل الرحمن ان کے کردار کے حوالے سے مطمئن نہیں اور انہوں نے اپنی جماعت کے ذمہ داران سے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ بڑی جماعتوں کی حمایت اور ان کے سیاسی کردار سے زیادہ توقعات قائم نہ کی جائیں۔دونوں بڑی جماعتوں کی لیڈر شپ کا بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکومت سے نجات کیلئے احتجاج کامیاب نہ ہو سکا تو عمران خان کی حکومت کو پھر چار سال برداشت کرنا پڑے گاایسے فیصلہ کیلئے زیادہ سوچ بچار کی ضرورت ہے ۔ انہیں کسی قیمت پر ایسے عمل کا حصہ نہیں بننا چاہئے جس کے باعث جمہوری سسٹم کو کوئی خطرہ ہو ۔ دونوں جماعتیں اس امر سے بھی خوفزدہ ہیں کہ مارچ میں مذہبی رنگ اور قیادت نمایاں ہوگی۔جب تک دونوں جماعتوں کو اس امر کا سو فیصد یقین نہیں ہوتا کہ حکومت کے خلاف احتجاجی دھرنا فیصلہ کن ہوگا وہ ایسے کسی اقدام سے گریز برتیں گی یہی وجہ ہے انہوں نے احتجاجی دھرنا کی اصولی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اس کے طریقہ کار کیلئے آل پارٹیز کانفرنس کی تجویز دی ہے اور کہا ہے کہ پارٹیوں کی لیڈر شپ فیصلہ کرے حکومت سے نجات کے بعد کیا کرنا ہے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں اپنی مشکلات ، مقدمات اور جیلوں کے باعث عمران خان کی حکومت سے نجات تو چاہتی ہیں لیکن ملک میں جاری و ساری جمہوری سسٹم کی قیمت پر نہیں۔ دیکھنا پڑے گا آج مولانا فضل الرحمن سے پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ اور مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال کی ملاقاتیں کس حد تک کارگر ہوتی ہیں۔