حکومت کو احسا س ہو گیا سیاسی دشمن کو نظر اندازنہیں کرنا چاہئے
موجودہ حالات میں دھرنا سیاست کو فروغ ملا تو پھر کوئی بھی حکومت چل نہیں پائے گی کمیٹی اور اپوزیشن کو فیصلہ کرنا ہے سلسلہ نہ چل پایا تو پھر سسٹم کی کوئی گارنٹی نہیں ہوگی
تجزیہ:سلمان غنی حکومت کی جانب سے اپوزیشن خصوصاً مولانا فضل الرحمن، ان کے آزادی مارچ کے حوالے سے بنائی جانے والی کمیٹی کے نام سامنے آنے پر کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کو اس امر کا احساس ہو گیا ہے کہ مخالف کو سیاسی دشمن سمجھتے ہوئے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے اور اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کے بعد حکومت خود بھی چین سے نہیں چل سکتی۔کمیٹی میں جولوگ ہیں وہ سیاسی اور جمہوری روایات کو سمجھتے بھی ہیں اور اس پر کسی حد تک چلتے بھی نظر آتے ہیں۔ مخالفین سے اچھے روابط رکھتے ہیں اور مسائل کے سیاسی حل پر یقین رکھتے ہیں۔ لہٰذا اب بڑا سوال یہ ہوگا کہ کمیٹی کس حد تک با اختیار ہوگی اور مولانا فضل الرحمن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے استعفے کی شرط سے انہیں کیسے پیچھے لایا جا سکے گا۔ شروع شروع میں تو خود وزیراعظم عمران نے بھی اسے سنجیدگی سے نہ لیا اور کہا کہ مولانا اپنے 27 اکتوبر کو احتجاجی دھرنے پر قائم رہیں اور وزیراعلیٰ پختونخوامحمود خان نے یہ اعلان کر کے کہ پختونخوا سے کسی ایک شخص کو بھی دھرنے میں جانے نہیں دیں گے ۔ اس احتجاجی مارچ کو بڑا ایشو بنا دیا اور پھر کوئی ایسا دن نہیں گیا کہ احتجاجی مارچ اور اس کے حوالے سے سرگرمیاں ملکی سیاست پر غالب آ گئیں۔ بعض حکومتی وزرا مولانا فضل الرحمن اور ان کے احتجاجی مارچ پر طنز کے نشتر برساتے نظر آئے ۔ لیکن اس کا الٹ اثر ہوا اور احتجاجی مارچ کے ا علان کو سیاسی محاذ پر اس حد تک پذیرائی ملی کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی،دوسری جانب حکومت پر آنے والے دباؤ کے بعد اور خصوصاً بعض اداروں کی جانب سے دی جانے والی رپورٹس نے حکومت کو مجبور کیا کہ احتجاجی مارچ سے نمٹنے کیلئے سیاسی حکمت عملی اپنائی جائے اور تا ریخ یہی بتاتی ہے کہ سیاسی ایشوز کا سیاسی حل ہی کارگر ہوتا ہے اور انتظامی ہتھکنڈوں کے ذریعے سیاسی تحاریک کو دبایا نہیں جا سکتا، بلکہ یہ الٹا جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں لہٰذا حکومت نے وفاقی کابینہ میں پہلے پہل تو ذمہ داری صوبائی وزرائے اعلیٰ کو دی کہ وہ اپنے اپنے مقامات پر احتجاجی مارچ کے حوالے سے حکمت عملی بنائیں اور اس کے ساتھ ہی مولانا فضل الرحمن سے مذاکرات کیلئے وزیر دفاع پرویز خٹک کی قیادت میں کمیٹی بنانے کا اعلان کیا جس سے ظاہر ہوا کہ حکومت کو اس امر کا احساس ہو گیا ہے کہ احتجاجی مارچ کوئی معمول کا عمل نہیں جسے معمول کے اقدامات سے نمٹا جا سکے گا لہٰذا اس غیر معمولی عمل اور اقدام سے نمٹنے کیلئے سیاسی اقدامات کی ضرورت ہے ۔ اب وزیر دفاع پرویز خٹک کی جانب سے مذاکراتی کمیٹی کیلئے جن شخصیات کے نام دیئے گئے ہیں ایک مرتبہ پھر یہ امید بندھی ہے کہ یہ کمیٹی اپوزیشن سے رابطہ کر کے بات چیت کے عمل کے ذریعے سیاسی مسائل کے حل بارے پیش رفت کر سکتی ہے اور ایسی اطلاعات بھی آ رہی ہیں کہ مذکورہ کمیٹی کے اراکین نے مولانا فضل الرحمن ،ان کی جماعت کے ذمہ داران اور خود اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے ذمہ داران سے روابط شروع کر دیئے ہیں،جہاں تک مولانا فضل الرحمن کے رد عمل اور خصوصاً وزیراعظم کے استعفے کا سوال ہے تو اپوزیشن ہمیشہ کسی بھی احتجاج یا تحریک کا آغاز اسی مطالبہ پر کرتی ہے ، مولانا فضل الرحمن جیسے شخص سے کسی مذاکرات سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ وہ تو ہمیشہ ڈائیلاگ کی بات کرتے رہے ہیں۔ افہام و تفہیم کے قائل ہیں آخر وہ کیونکر لچک دینے کو تیار نہیں ، اس حوالے سے دونوں بڑی جماعتوں پر ذمہ داری آئے گی کہ وہ سسٹم کو چلانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں اور حکومت کو معاملات چلانے کا موقع دیں۔ جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمن اپنے احتجاجی مارچ سے پیچھے ہٹ پائیں گے تو اس کا تو کوئی امکان نظر نہیں آتا البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر ان کے احتجاجی مارچ سے انتظامی بنیادوں پر نمٹنے کے بجائے سیاسی حکمت عملی کے تحت انہیں احتجاج کا سازگار موقع مل جاتا ہے اور وہ اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کر پاتے ہیں تو یقیناََ انہیں پھر کسی نئے پروگرام کا اعلان کرنا پڑے گا۔ دونوں بڑی جماعتوں کے حوالے سے اب بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان کے استعفے اور نئے انتخابات کی بات کرتی ضرور نظر آتی ہیں مگر انہیں اس امر کا بھی ادراک ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت کو بری طرح ایکسپوز ہونے کے بجائے پہلے ہی چلتا کیا گیا تو پھر اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہوگی کہ نئے انتخابات ہو پائیں اور اگر نئے انتخابات بھی ہو جائیں تو پھر اس کے نتیجہ میں بننے والی حکومت کو کون چلنے دے گا لہٰذا سسٹم کے تسلسل کا انحصار خود اہل سیاست کے طرز عمل پر ہے اور اگر حکومتوں کی تبدیلی کیلئے آئینی و قانونی طریقہ کار اختیار کرنے کے بجائے دھرنا سیاست کو فروغ ملا تو پھر کوئی بھی حکومت چل نہیں پائے گی اب یہ فیصلہ مذاکراتی کمیٹی اور اپوزیشن کو مل کر کرنا ہے کہ آگے کیسے چلنا ہے یہ سلسلہ نہ چل پایا تو پھر سسٹم کی کوئی گارنٹی نہیں ہوگی۔