معیشت کیوں منحوس چکر میں پھنس گئی؟
جناب وزیر اعظم ! ذاتی انا بہت اچھی نیت کو بھی بہت آسانی سے انتشار میں تبدیل کردیتی ہے
(امتیاز گل)… لوٹی ہوئی دولت کی واپسی (وصولی) اور کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے آپ کا جوش و جذبہ یقیناً قابل احترام ہے ۔ وزیر اعظم کے دفتر میں گزارے ہوئے 17 ماہ کے دوران کرپشن کے خلاف آپ کے دعوے اور اعلانات ہمیشہ کی طرح خاصے پرجوش اور ٹھوس ہیں اور اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ معیشت ایک منحوس چکر میں پھنس گئی ہے ۔ یہ ‘‘انڈا پہلے آیا یا مرغی’’ والی صورت حال ہے ۔ بڑے پیمانے کی صنعتی پیداوار سکڑ گئی ہے ۔اس کے نتیجے میں بے روزگاری نے نئی بلندی کو چھوا ہے ۔ عام آدمی افراط زر کی شرح کے بلند ہونے سے عجیب صورت حال کا شکار ہے ۔ حکومتی یا ریاستی مشینری آمدن بڑھانے کے لیے عوام سے یوٹیلیٹی بلز اور فیول کے نرخوں کے ذریعے خوب وصولی کر رہی ہے ۔ اسٹیٹس کو یعنی بزنس ٹائیکونز اور بیورو کریٹس مل کر معاملات کو پیچھے دھکیل رہے ہیں اور حکومت کے لیے شدید بے آرامی پیدا کر رہے ہیں۔ اس معاملے میں ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی ایک مثال بن کر ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔ ایف بی آر کے بیورو کریٹس جنہوں نے معیشت کا لہو ہر دور میں جونکوں کی طرح چوسا ہے ۔ چاہتے ہیں کہ ادارے کا سربراہ ان کے درمیان سے اور ان جیسا ہو۔ جو مزے اب تک لوٹے جاتے رہے ہیں اُن سے محروم ہو جانے کے خوف سے ایف بی آر کے افسران شبر زیدی کے خلاف آستینیں چڑھا چکے ہیں اور ان کے نیک ارادوں کے باوجود انہیں بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عمران خان نے بیرون ملک پاکستانیوں کے پڑے ہوئے ‘‘کرپشن’’ کے اربوں ڈالرز کی وصولی کر کے انہیں قومی خزانے میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہ امکان اب خاصا معدوم دکھائی دیتا ہے ۔ نواز شریف کے بیرون ملک جانے سے عمران خان کے مخالفین کو ان کی ‘‘ہذیان گوئی’’ پر ضرب لگانے کا موقع مل گیا ہے ۔ جناب وزیراعظم ! ایسا لگتا ہے کہ آپ پاکستان کے عزیز ترین اور قریب ترین دوست چین سے ایک اہم بات سیکھنا بھول گئے ہیں ۔وہاں کرپشن کے خلاف مہم 15 سال قبل اُس وقت شروع کی گئی جب معیشت کی شرح نمو 9 فیصد تھی۔ 2012 ء میں کمیونسٹ آف چائنا کے سربراہ کا چارج سنبھالنے کے بعد صدر شی جن پنگ نے افلاس کے خاتمے اور گورننس کے ڈھانچے کی تشکیل نو کے ساتھ ساتھ کرپشن کے خلاف مہم کو قومی ایجنڈے میں تبدیل کیا۔ صدر شی جن پنگ نے اپنے مشن کو کامیاب بنانے کے لیے شعوری سطح پر بہت محنت کی کیوں کہ انہیں یقین تھا کہ کرپشن کی گہری جڑیں آمدنی میں عدم مساوات کا سبب ہیں اور کمیونسٹ پارٹی کے وجود کے لیے بھی خطرہ بن رہی ہیں۔ چین میں کرپشن پر نظر رکھنے والے سرکاری ادارے کے ریکارڈز سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ برس نائب وزیر کے درجے کے 20 افسران کو سزا دی گئی۔ ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی 11 جنوری 2020 ء کی اشاعت کے مطابق سزا یافتہ افسروں میں ینان صوبے میں کمیونسٹ پارٹی کے سابق سربراہ کن گوانگرونگ بھی شامل ہیں۔ استغاثہ کے اہلکاروں کو گزشتہ برس 19 ہزار کیسز سونپے گئے اور مختلف سطحوں کے 4 لاکھ 85 ہزار کمیونسٹ پارٹی ارکان کے خلاف نظم و ضبط کی خلاف ورزی کے الزام میں کارروائی کی گئی۔ جناب وزیراعظم ! صدر شی جن پنگ ایسا کرسکتے تھے کیوں کہ وہ پیپلز لبریشن آرمی کے سپریم کمانڈر اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے سپریمو بھی ہیں۔ بدقسمتی سے آپ ایسی قابلِ رشک پوزیشن کے حامل نہیں۔ شی جن پنگ کو متعدد ایشوز پر پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کی حمایت درکار نہیں تھی ۔آپ کو بہت سے اہم معاملات میں سیاسی و سماجی فیکٹرز کا سامنا ہے جن میں بیورو کریسی کے ساتھ ساتھ بزنس کمیونٹی، اپنی خدمت میں مصروف سیاسی اشرافیہ یعنی گھن گرج کرتے ہوئے موقع پرست اتحاد ی شامل ہیں۔ جناب وزیر اعظم ! جمود کا شکار ہو جانے والی معیشت اور لاکھوں افراد کی بے روزگاری اس بات کی متقاضی ہے کہ کرپشن مخالف مہم اور معیشت کو بحال کرنے کی کوششوں کے درمیان توازن ہو۔ دوسرے یہ کہ زور اس طریقے کو تبدیل کرنے پر ہونا چاہیے جس کے تحت حکومت فنڈز خرچ کرتی ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ آپ قومی آمدن میں کس حد تک اضافہ یقینی بناتے ہیں، سرکاری خریداریوں کا طریقہ اور ٹینڈر جاری کرنے کا نظام تبدیل کیے بغیر قومی خزانے سے بہت کچھ رسنے کا عمل جاری رہے گا۔ تیسرے یہ کہ فیصلہ سازی کے عمل سے بیورو کریسی کو دور کیے بغیر آپ اس بیورو کریسی کے شکنجے سے خود کو نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکیں گے جس نے اس ملک پر سات دہائیوں سے راج کیا ہے ۔ یہ ‘‘بابو’’ آپ کے تمام منصوبوں کو ہائی جیک کر کے انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کو دیکھ لیجیے کہ کس طور بیورو کریٹس نے سکالر شپ پروگرامز (پاکستان میں افغان طلبہ اور بیرون ملک پاکستانی طلبہ) کے لیے منظور شدہ فنٖڈز بھی جاری نہ کر کے اس ادارے کو یرغمال بنا رکھا ہے ۔ پروسیجر یعنی طریق کار سے متعلق چھوٹے چھوٹے معاملات کے ہاتھوں پاکستان کی ساکھ کو جو نقصان پہنچتا ہے یہ بیورو کریٹس اس کی بھی پروا نہیں کرتے ۔ یہ بات کس قدر شرم ناک ہے کہ جن طلبا و طالبات کے سکالر شپس کی منظوری دی جاچکی ہے ، اس کے فنڈز کے اجرا کے لیے انہیں سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنا پڑتا ہے ۔ غیر روایتی انداز سے کام کیے بغیر، فیصلہ سازی کے عمل سے بیورو کریٹس کو دور کیے بغیرآپ کا 2020 ء میں ٹیک آف کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔